اسرائیل کو دھمکیاں کھوکھلی نہیں، خفیہ تصاویر میں تشویشناک انکشاف، ایران بڑی تیاری کر رہا ہے؟
فلسطین میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے درمیان ایران کئی بار اسرائیل کو دھمکیاں دیتا رہا ہے، لیکن اب خفیہ سیٹلائٹ سے لی گئی ایران کی کچھ ایسی تصاویر سامنے آئی ہیں، جس سے خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ایران کوئی بڑی تیاری کر رہا ہے۔
مبینہ خفیہ تصاویر ایران کے دارالحکومت تہران سے ملحقہ علاقوں مودارس اور خوجیر کی ہیں، جہاں دو بڑی فیکٹریوں میں کافی ہلچل نظر آرہی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی ”روئٹرز“ کی رپورٹ کے مطابق ان فیکٹریوں میں بیلسٹک میزائل اور ڈرون بنائے جاتے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ان میں کافی توسیع ہوئی ہے۔
رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ روس کے علاوہ یہاں تیار کردہ میزائل حزب اللہ کو فراہم کیے جا رہے ہیں، جب کہ ڈرونز حوثی باغیوں کو فراہم کیے جا رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں دو امریکی محققین کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ یہ سیٹلائٹ تصاویر میزائل پروڈکشن میں اضافے کو ظاہر کرتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایران کے تین اعلیٰ حکام نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد روس نے اکتوبر 2022 میں ایران کے ساتھ میزائل سپلائی کا معاہدہ کیا تھا اور اس کے بعد ہی وہاں ان میزائل فیکٹریوں کی توسیع دیکھی گئی۔
امریکی حکام کے مطابق تہران یمن کے حوثی باغیوں اور لبنانی ملیشیا حزب اللہ کو بھی میزائل فراہم کرتا ہے۔ یہ دونوں اسرائیل کے خلاف ایران کے حمایت یافتہ ایکسس آف ریزسٹینس کے اراکین ہیں۔
کمرشل سیٹلائٹ کمپنی پلینٹ لیبز کی طرف سے مارچ میں مودارس آرمی بیس اور اپریل میں خوجیر میزائل فیسیلیٹی کی لی گئی تصویروں میں دونوں جگہوں پر 30 سے زیادہ نئی عمارتیں دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ دونوں تہران کے قریب واقع ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کا اسلحہ پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑا ہے۔
ایسا مانا جاتا ہے کہ اس کے پاس 3,000 سے زیادہ میزائل ہیں، جن میں روایتی اور جوہری ہتھیار لے جانے کے لیے ڈیزائن کیے گئے ماڈل بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایران کے تین اعلیٰ حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ مودارس اور خوجیر میں ان کارخانوں میں توسیع کی جا رہی ہے تاکہ روایتی بیلسٹک میزائلوں کے پروڈکشن میں اضافہ کیا جا سکے۔
ان میں سے ایک اہلکار نے کہا کہ یہاں کچھ نئی عمارتیں ڈرون بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور اس سے ایران کی ڈرون پیداوار دوگنی ہوسکتی ہے۔
Comments are closed on this story.