طلاق کے بعد بھی مسلمان خاتون سابق شوہر سے خرچ لے سکتی ہے، بھارتی سپریم کورٹ کا غیرمعمولی فیصلہ
بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک غیر معمولی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 125 کے تحت کوئی بھی مطلقہ مسلم خاتون اپنے سابق شوہر سے خرچہ طلب اور وصول کرنے کا حق رکھتی ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ کے بینچ نے رولنگ میں کہا کہ مسلم ویمین ایکٹ مجریہ 1986 ملک کے سیکیولر قانون سے برتر نہیں ہوسکتا۔
بدھ کو ایک مقدمے کا فیصلہ سُناتے ہوئے جسٹس بی وی ناگارتنا اور جسٹس آگستائن جارج مسیح نے ایک مسلم خاتون کے سابق شوہر کی طرف سے دائر کی گئی درخواست مسترد کردی۔ یہ درخواست خاتون کی طرف سے خرچہ طلب کیے جانے کے خلاف تھی۔
بینچ نے اپنی رولنگ میں یہ بھی کہا کہ اگر درخواست کے زیرِ التوا ہونے کے دوران خاتون کو طلاق ہوجائے تو وہ 2019 کے قانون کا سہارا لے سکتی ہے۔ یہ قانون کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے سیکشن 125 میں طے کیے گئے حل سے زیادہ تجویز کرتا ہے۔
جسٹس بی وی ناگا رتنا نے فیصلے میں کہا کہ ہم درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ قرار دے رہے ہیں کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کا سیکشن 125 صرف شادی شدہ خواتین پر نہیں بلکہ تمام خواتین پر اطلاق پذیر ہوگا۔
1985 کے مشہورِ زمانہ شاہ بانو کیس میں بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ کوڈ آف کرمنل پروسیجر کا سیکشن 125 سیکیولر پروویژن ہے جو تمام مسلم خواتین پر بھی اطلاق پذیر ہوگا۔ اس فیصلے کو 1986 میں مسلم ویمین (پروٹیکشن آف رائٹس آن ڈیوورس) ایکٹ 1986 نے کالعدم قرار دے دیا اور 2001 میں اس قانون کی بالا دستی تسلیم کرلی گئی۔
اس کیس میں تلنگانا ہائی کورٹ نے ایک شخص کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنی سابق اہلیہ کو عبوری طور پر ماہانہ 10 ہزار روپے خرچے کی مد میں ادا کرے۔
ابتدائی طور پر اس کیس میں ایک فیملی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ سابق اہلیہ کو عبوری طور پر ماہانہ 20 ہزار روپے خرچے کی مد میں ادا کیے جائیں۔ چیلنج کیے جانے پر تلنگانا ہائی کورٹ نے رقم نصف کردی تھی۔
Comments are closed on this story.