’کفایت شعاری مہم‘ ہوا کی نذر، سپلیمنٹری گرانٹس میں ریکارڈ اضافہ
اسلام آباد: پارلیمنٹ نے 28 جون کو وفاقی حکومت کو رواں مالی سال کے لیے170 ارب روپے سے زائد کے اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اختیار دیا تھا۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً پانچ گنا زیادہ اخراجات کے لیے 940 ارب روپے کی ریکارڈ منظوری دی ہے۔
واضح رہے کہ پی ڈی ایم، نگراں حکومت اور حکمراں اتحادی حکومت کی جانب سے کفایت شعاری اور سخت مالیاتی کنٹرول کے دعوؤں کے باوجود یہ بڑے پیمانے پر اخراجات سامنے آئے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ تازہ بجٹ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 93 کھرب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹس کے لیے پارلیمانی منظوری حاصل کی جو کہ ایک سال قبل منظور کیے گئے 19 کھرب 15 ارب روپے سے 389 فیصد زیادہ ہے۔
متضاد طور پر 23-2022 کے مالی سال کے آخری 45 دنوں یعنی 16 مئی سے 30 جون 2023 کے درمیان تقریباً 86 فیصد (80 کھرب روپے سے زیادہ) اخراجات کیے گئے۔
وزیراعظم نے 15رکنی قومی کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دیدی
حیرت انگیز طور پر 23-2022 کے مالی سال کے آخری 45 دن (یعنی 16 مئی سے 30 جون 2023) کے درمیان تقریباً 86 فیصد (80 کھرب روپے سے زیادہ) زائد اخراجات کیے گئے۔
اس بات کا امکان بڑھ گیا کہ حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال میں ضرورت سے زیادہ اخراجات اس سے بھی زیادہ ہو سکتے ہیں، جس کے لیے حکومت نے 17 مئی تک صرف 13 کھرب روپے یا 14 فیصد سپلیمنٹری گرانٹس کو رپورٹ کیا ہے۔
زائد اخراجات میں اضافے میں تقریباً 70 فیصد کا ایک بڑا حصہ حکومت کی جانب سے موجودہ قرضوں کی ادائیگی یا خدمت کے لیے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کی وجہ سے ہوا، جب کہ کچھ بڑا حصہ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے اور کے -الیکٹرک کو ادائیگیوں کی وجہ سے ہوا۔
کفایت شعاری اقدامات کے تحت بڑے اقدامات کا اعلان، نئی بھرتیوں پر بھی پابندی
ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے بتایا کہ کچھ قبل توجہ اخراجات اسراف کے زمرے میں بھی آتے ہیں جو کفایت شعاری کی پالیسی کے تناظر میں ٹھیک نہیں تھے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم آفس کو کفایت شعاری کا مثال قائم کرنی چاہیے تھی، نے اپنے افسران کو ”اعزازی“ کے لیے 39 ملین روپے اور 42 ملین روپے کی دو الگ الگ ضمنی گرانٹس حاصل کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزارت خزانہ نے سپلیمنٹری گرانٹس کے لیے اصل ہیڈز کو ریکارڈ پر لانے کی زحمت تک نہیں اور صرف ون لائنر دیتے ہوئے ’بجٹ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے‘ ہے۔
Comments are closed on this story.