فرانس میں الیکشن کا دوسرا مرحلہ، صدر ماکروں حکومت بچاسکیں گے؟
فرانس میں آج صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے کی پولنگ ہو رہی ہے۔ پاکستانی وقت کے مطابق پولنگ دن کے ایک بجے شروع ہوئی ہے۔ چھوٹے شہروں میں پولنگ رات گیارہ بجے تک اور بڑے شہروں میں رات کے ایک بجے تک جاری رہے گی۔
انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی پارٹی کی سربراہ میرین لی پین نے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ دوسرے مرحلے میں اُن کی کامیابی کا امکان قوی ہے اس لیے دوسری جنگِ عظیم کے بعد فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی پہلی حکومت کی تشکیل متوقع ہے۔
دوسرے مرحلے میں بھی نیشنل ریلی پارٹی بڑی تعداد میں نشستیں جیتے گی تاہم واضح اکثریت شاید ہی حاصل کر پائے۔ اس کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ معرضِ وجود میں آسکتی ہے۔ یوں صدر ایمانویل میکراں کی حکومت کمزور پڑ جائے گی۔
معلق پارلیمنٹ فرانس کے سیاسی نظام کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے صدر میکراں کی اتھارٹی کمزور پڑے گی اور وہ اہم ترین فیصلوں میں پارلیمنٹ کی مرضی کے مطابق چلنے کے پابند ہوں گے۔ ایسے میں سیاسی نظام قدرے تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔
نیشنلسٹ نیشنل ریلی پارٹی یورپی یونین سے وابستگی کے معاملے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے۔ اگر وہ اکثریت حاصل کرتی ہے تو کاروبار دوست اور یورپی یونین نواز فرانسیسی صدر کو با دلِ ناخواستہ اُس کے ساتھ مل کر چلنا پڑے گا۔
فرانس میں انتخابات کا پہلا مرحلہ گزشتہ ہفتے ہوا تھا۔ دوسرے مرحلے میں نیشنل ریلی پارٹی کی میرین لی پین کی بھرپور کامیابی کی راہ روکنے کے لیے بائیں بازو کی اور مرکز نواز سیاسی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر آنے کا فیصلہ کیا تھا۔
فرانسیسی پارلیمںٹ 577 ارکان پر مشتمل ہے اور اس میں نیشنل ریلی پارٹی کی واضح اکثریت کا واقع ہونا بہت دور کا معاملہ لگتا ہے۔ لی پین اور اُن کے 28 سالہ ساتھی جارڈن بارڈیلا کو امید ہے کہ اُن کی جماعت 289 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور یوں جارڈن بارڈیلا وزارتِ عظمٰی کی طرف بڑھ سکیں گے۔
نیشنل ریلی پارٹی تارکینِ وطن اور بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ہے۔ دیگر اقلیتوں کے لیے بھی نیشنل ریلی پارٹی کا رویہ اچھا نہیں رہا۔ دارالحکومت پیرس کے نزدیک گوسین ولے نامی قصبے میں بیس سالہ طالبہ سلمٰی بوزین نے کہا کہ نیشنل ریلی پارٹی مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کرتی ہے۔ اُس کے خیال میں فرانس کے تمام مسائل کی جڑ اسلام ہے۔
میرین لی پین کا کہنا ہے کہ وہ اسلام کے خلاف نہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ تارکینِ وطن کا معاملہ بے قابو ہوچکا ہے اور بہت بڑی تعداد میں لوگ فرانس آکر بہبودِ عامہ کے نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بڑھاتے ہیں۔
Comments are closed on this story.