Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکمنامے میں موبائل فون صارفین کے کال اور ایس ایم ایس تک رسائی کا انکشاف

بادی النظر میں وزرائے اعظم ، سیاسی لیڈرز، ججز کی آڈیو ریکارڈنگ سرویلنس کا میکنزم موجود ہے، آڈیو لیکس کیس کا تحریری حکمنامہ جاری
اپ ڈیٹ 30 جون 2024 10:35pm
جسٹس بابر ستار۔ فوٹو۔۔۔فائل
جسٹس بابر ستار۔ فوٹو۔۔۔فائل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا، بشریٰ بی بی کے کیس میں جسٹس بابر ستار نے 29 صفحات کا تفصیلی حکم جاری کیا۔ جس میں کہا گیا کہ کون شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی اور پھر سوشل میڈیا پر ڈیٹا لیک کا ذمہ دار ہے ؟ اس حوالے سے وفاقی حکومت سے 6 ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی گئی۔

حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ تقریبا 40 لاکھ موبائل صارفین کی ایک وقت میں کال اور ایس ایم ایس تک رسائی ہو رہی ہے، موبائل کمپنیز نے شہریوں کے 2 فیصد ڈیٹا تک جو رسائی کا سسٹم لگا کر کے دے رکھا ہے بادی النظر میں قانوناً درست نہیں، دوفیصد ڈیٹا تک رسائی کے سسٹم کو کون استعمال کر رہا ہے اس حوالے سے عدالت کو نہیں بتایا گیا۔

ہائی کورٹ نے حکمنامے میں کہا کہ وفاقی حکومت چھ ہفتے میں بتائے کون شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی اور پھر سوشل میڈیا پر ڈیٹا لیک کا ذمہ دار ہے، بادی النظر میں وزرائے اعظم ، سیاسی لیڈرز، ججز کی آڈیو ریکارڈنگ سرویلنس کا میکنزم موجود ہے، بادی النظر میں ریکارڈنگ کے بعد آڈیو پہلے مخصوص سوشل اکاؤنٹس اور پر پھر مین اسٹریم میڈیا پر آتی ہے۔

حکمنامے کے مطابق سرویلنس کے لیے شہریوں کی کال ریکارڈنگ سسٹم بادی النظر میں قانونی طور پر درست نہیں، ٹیلی کام کمپنیز آئندہ سماعت تک یقینی بنائیں کہ سرویلنس سسٹم تک رسائی نہ ہو۔ وفاقی حکومت اور پی ٹی اے عدالت کو بتا چکے کہ کسی ایجنسی کو سرویلنس کی اجازت نہیں دی، غیر قانونی طور پر ٹیلی کام کمپنیز کا شہریوں کے ڈیٹا تک رسائی دینا غیر آئینی ہے، غلط بیانی پر پی ٹی اے چیئرمین اور ممبران کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔

فون ٹیپنگ کا کوئی قانون موجود نہیں، جو ہو رہا ہے وہ غیرقانونی ہے، جسٹس بابر ستار

عدالتی حکم کے مطابق لا فل انٹرسپشن مینجمنٹ سسٹم کے حوالے سے غلط بیانی پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا، ٹیلی کام آپریٹرز اور پی ٹی اے کے درمیان خط و کتابت کی تفصیل پی ٹی اے سربمہر لفافے میں جمع کرائے، ٹیلی کام کمپنیز بھی پی ٹی اے کے ساتھ سسٹم انسٹال کرنے کی سر بمہر رپورٹ جمع کرائیں۔

ہائیکورٹ نے کہا کہ ٹیلی کام کمپنیز آئندہ سماعت تک سی ڈی آر، لائیو لوکیشن وزارت داخلہ کے ایس او پیز کے مطابق شیئر کریں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹیلی کام کمپنیز کو سرویلینس کیلیے فون کال ، ڈیٹا کے استعمال سے روک دیا

حکمنامے کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ چیمبر میں کچھ دستاویزات دکھانا چاہتے ہیں، چیمبر سماعت کی استدعا مسترد کردی گئی، وفاقی حکومت سر بمہر لفافے میں دستاویزات جمع کرا سکتی ہے، توقع ہے وزیر اعظم خفیہ اداروں سے رپورٹس طلب کر کے معاملہ کابینہ کے سامنے رکھیں گے، وفاقی حکومت رپورٹ دے کہ لا فل انٹرسپشن مینجمنٹ سسٹم لگانے کا ذمہ دار کون ہے؟۔ لا فل انٹرسپشن مینجمنٹ سسٹم کا انچارج کون ہے جو شہریوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کا ذمہ دار ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی مبینہ آڈیو لیک کے خلاف کیس پر سماعت کے دوران چار محکموں نے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی درخواست کی تھی۔

آڈیو لیکس: کوئی بھی سستے ریکارڈنگ ٹولز خرید سکتا ہے، وزارت دفاع کا جواب

پیمرا پی ٹی اے، ایف آئی سے اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی استدعا کی تھی۔

تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا، ایف آئی اے، پی ٹی اے کی جانب سے جسٹس بابر ستار سے آڈیو لیکس کیس سے علیحدہ ہونے کی متفرق درخواستیں خارج کردیں تھیں، عدالت نے پیمرا، پی ٹی اے، ایف آئی اے کی درخواستیں پانچ پانچ لاکھ روپے کے جرمانوں کے ساتھ خارج کر دی تھیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال اپریل میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے صاحبزادے نجم ثاقب کی پنجاب اسمبلی کے حلقہ 137 سے پاکستان تحریک انصاف کا ٹکٹ لینے والے ابوذر سے گفتگو کی مبینہ آڈیو منظر عام پر آگئی تھی جس میں انہیں پنجاب اسمبلی کے ٹکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا۔

آڈیو لیکس کیس: جسٹس بابر ستار نے ججز پر اعتراض کی درخواستیں بدنیتی پر مبنی قرار

مبینہ آڈیو میں حلقہ 137 سے امیدوار ابوذر چدھڑ سابق چیف جسٹس کے بیٹے سے کہتے ہیں کہ آپ کی کوششیں رنگ لے آئی ہیں، جس پر نجم ثاقب کہتے ہیں کہ مجھے انفارمیشن آگئی ہے۔

خیال رہے کہ بشریٰ بی بی اور نجم ثاقب کی مبینہ ٹیلی فونک کالز لیک ہوگئی تھیں، جس کی ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی، اس حوالے سے دونوں نے عدالت میں علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کی تھیں، تاہم عدالت نے نجم ثاقب اور بشریٰ بی بی کی جانب سے دائر علیحدہ علیحدہ درخواستوں کو اکٹھا کردیا تھا۔

Islamabad High Court

bushra bibi

Audio leaks