Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

سیاسی معاملات میں مداخلت فوج کے اپنے حلف کی نفی ہے، اس مداخلت کو تسلیم نہیں کرسکتے، مولانا فضل الرحمان

پی ٹی آئی قیادت میں اب تک یکسوئی کا فقدان ہے، امیر جے یو آئی
اپ ڈیٹ 30 جون 2024 09:09pm
فوٹو۔۔۔فائل
فوٹو۔۔۔فائل

جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے نئے انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک ہوں۔ سیاسی معاملات میں مداخلت فوج کے اپنے حلف کی نفی ہے، اس مداخلت کو ہم تسلیم نہیں کرسکتے۔ فضل الرحمان نے یہ بھی بتایا کہ مرکزی مجلس شوریٰ نے کسی باضابطہ اتحاد میں جانے کا انتظار کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں جے یو آئی ایف کی مرکزی مجلس شوریٰ اجلاس کے فیصلوں سے آگاہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دفاع کا مسئلہ ہو تو قوم، فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، جب کہ سیاسی معاملات میں مداخلت ان کے اپنے حلف کی نفی ہے، اس مداخلت کو ہم تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوسکتے۔

انھوں نے کہا کہ عزم استحکام آپریشن میں بھی یکسوئی نہیں پائی جارہی، جب کہ رد الفساد آپریشن تک جتنے بھی آپریشن ہوئے، دہشتگردی کی شرح 10 فیصد زیادہ ہوگئی۔

سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ مسئلہ ایک سیاسی جماعت کو راضی کرنے کا نہیں ہے،ص اف اور شفاف الیکشن کرائے جائیں، ہمارے مطالبات بہت سنجیدہ ہیں، ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو خوش آمدید کہتے ہیں۔

’پی ٹی آئی قیادت میں یکسوئی کا فقدان ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم آج بھی اپنے مثبت رویوں پر قائم ہیں، ’پی ٹی آئی قیادت میں اب تک یکسوئی کا فقدان ہے‘، اس وقت تک پارٹی کے سربراہ نے کسی مذاکراتی ٹیم کا اعلان نہیں کیا، سنی اتحاد کونسل کے سربراہ کا دل سے احترام کرتا ہوں، صاحبزادہ حامد رضا نے کہا تھا کہ جے یو آئی کے ساتھ اتحاد نہیں ہوسکتا، دو متصادم قسم کی آرا میں ہم کوئی رائے قائم کرنے میں دقت محسوس کررہے ہیں، ایک بہتر سیاسی ماحول تشکیل دینے کیلئے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

انھوں نے کہا کہ مرکزی مجلس شوری نے اعادہ کیا کہ آئین تمام اداروں کے دائرہ کار کا تعین کرتا ہے، تمام ادارے اپنا آئینی کردار ادا کریں۔

’ریاستی ادارے کب عوام کی آرزوں کو پورا کریں گے‘

محاورے کا استعمال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی“۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ فاٹا کیلئے 10 سال تک ہر سال 100 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا لیکن پورا نہیں ہوا، کیا ریاست کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے، ’ہم پر تو لازم ہے کہ ریاستی اداروں کے خلاف زبان نہ کھولیں لیکن کب وہ عوام کی آرزوں کو پورا کریں گے‘۔

جے یو آئی کے امیر نے کہا کہ ہم پاک چین تعلقات کی مکمل حمایت کرتے ہیں، تاہم ابھی تک پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے چین کا اعتماد بحال نہیں کیا جاسکا۔

’امریکی ایوان نمائندگان نے الیکشن مشکوک قرار دیا‘

فضل الرحمان نے کہا کہ ’امریکی ایوان نمائندگان نے 8 فروری کے الیکشن کو مشکوک قرار دیا‘، پاکستان کی ریاست کہاں کھڑی ہے، خارجہ پالیسی کہاں کھڑی ہے، کیا یہ پاکستان کی سفارتی ناکامی نہیں، کیا یہ پاکستان کی لابی کی ناکامی نہیں۔

اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مرکزی مجلس شوریٰ نے کسی باضابطہ اتحاد میں جانے کا انتظار کیے بغیر اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ رابطوں کے عمل کو مثبت عمل تصور کیا جائے گا، سیاسی جماعتوں میں باہمی تعاون کا ماحول پیدا ہو تو کوشش ہوگی کہ اسے قابل عمل بنا سکیں۔

’کیا تم دہشتگردوں کے معاون ہو یا بے بس ہو‘

کہا گیا کہ ہم افغانستان کے اندر جاکر حملے کریں گے، یہ کوئی نئی بات نہیں، تم نے امریکیوں کو ہوائی اڈے دیے، 20 سال تک تم نے امریکی جہازوں کو اڑنے کی اجازت دی، تم نے امریکی جہازوں کو افغانستان میں بمباری کی اجازت دی، تم ناکام ہوچکے ہو، اب افغانستان میں حملے کا کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہو، ’کیا تم دہشتگردوں کے معاون ہو یا بے بس ہو‘، ہمیں طفل تسلیوں سے تسلیاں دینے کی کوشش نہ کی جائے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم فلسطینی مجاہدین کے ساتھ ہیں، ہمیں کوئی فکر نہیں کہ امریکا ہمیں کیا قرار دیتا ہے، اسرائیل کی حمایت کرنا جنگی جرم ہے، عالمی عدالت انصاف اسرائیل کو جنگی مجرم قرار دے، عالم اسلام نے فلسطینی عوام کو بے سہارا چھوڑ دیا۔

خواجہ آصف کے بیان کا انداز پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی علامت نہیں، مولانا فضل الرحمان

اس سے قبل جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) کے امیر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کا انداز پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی علامت نہیں۔ ایسے فیصلوں سے خطے میں کوئی ہمارا دوست نہیں رہے گا۔

واضح رہے کہ دو روز قبل وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں گھس کر دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کریں گے۔ جب کہ برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو پہلے بھی نشانہ بنایا ہے اور آئندہ بھی بنائیں گے، آپریشن عزمِ استحکام فوج کی نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ خواجہ آصف کے بیان پر افغان طالبان کا بھی رد عمل آیا تھا، افغان وزارت دفاع نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پالیسی بیان جاری کیا تھا کہ ’پاکستانی وزیر کا افغانستان کی قومی خودمختاری کی ممکنہ خلاف ورزی سے متعلق بیان ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے جو بد اعتمادی پیدا کرسکتا ہے اور یہ کسی کے حق میں نہیں ہوگی‘۔

اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کا انداز پاک افغان تعلقات بہتر ہونے کی علامت نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ جہاں ایسی جنگی تربیت کے نتیجے میں فیصلے ہوں گے تو پھر اسی طرح ہوگا، ایسے فیصلوں سے پھر خطے میں کوئی ہمارا دوست نہیں رہے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نہ ہماری آنکھیں کھلی ہیں اور نہ ہی ہمارے دل کی آنکھیں کھلی ہیں۔

یاد رہے کہ وزیر دفاع نے یہ بھی کہا تھا کہ افغان حکومت سے تعاون کی امید تھی لیکن وہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کو تیار نہیں، ہم حملے کرنے والوں کو کیک پیسٹری تو کھلائیں گے نہیں۔

afghanistan

afghan taliban

Khwaja Asif

Molana Fazal ur Rehman

Pakistan Law and order situation

Operation Azm e Istehkam