Aaj News

پیر, جولائ 01, 2024  
24 Dhul-Hijjah 1445  

ایرانی صدر منتخب ہونے پر مسعود پزشکیان وعدے نبھاسکیں گے؟

کچھ لوگ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی چال بھی سمجھ رہے ہیں، عمومی بیزاری نمایاں ہے، لوگ مایوسی کا شکار ہیں۔
شائع 28 جون 2024 04:12pm

ایران میں ہر صدارتی انتخاب کے موقع پر ایک سوال ضرور ذہنوں میں پنپتا ہے۔ یہ کہ کیا اب ایران میں کوئی حقیقی، بڑی تبدیلی رونما ہوگی۔ گزشتہ ماہ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی رحلت کے بعد اب صدارتی انتخاب کے موقع پر پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔

صدارتی امیدواروں میں مسعود پزشکیان بھی شامل ہیں۔ وہ اصلاح پسند ہیں یعنی رجعت پسند مذہبی قیادت سے ہٹ کر کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ ایسے میں لوگ بوجوہ شکوک میں بھی مبتلا ہیں۔ ذہنوں میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ وہ امید کی کرن ہیں یا محض اسٹیبلشمنٹ کی کوئی نئی چال۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں جو لوگ سیاسی اصلاحات کے حامی ہیں اُن کے لیے مسعود پزشکیان نے وعدہ کیا ہے کہ ملک اب نئی حکمتِ عملی کے تحت آگے بڑھے گا۔ اور یہ بھی کہ ایران میں چند ایک غیر متوقع امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔

ایران میں ایک عمومی چلن یہ رہا ہے کہ کوئی بھی امیدوار علما کی ایک طاقتور کمیٹی کی طرف سے اجازت ملنے ہی پر صدارتی انتخابم یں حسہ لے سکتے ہں۔ عوام میں اس عمل سے بیزاری نمایاں ہے اور ووٹ ڈالنے سے کترانے کا رجحان بھی۔

مسعود پزشکیان کو بہت حد تک وائلڈ کارڈ انٹری بھی قرار دیا جارہا ہے۔ وہ سابق وزیرِ صحت ہیں۔ امراضِ قلب کے ماہر سرجن ہونے کے ناطے وہ ایک باضابطہ پروفیشنل بھی ہیں۔ مسعود پزشکیان کے حوالے سے یہ بات بہت غیر معمولی اور دلچسپ ہ ہے کہ وہ خواتین کو حجاب کی پابندی کرنے پر مجبور کرنے والی اخلاقی پولیس کو غیر اخلاقی قرار دے چکے ہیں۔

مسعود پزشکیان کہتے ہیں کہ ڈریس کوڈ کے حوالے سے اپنایا جانے والا رویہ کسی طور درست نہیں کیونکہ مذہب لباس کے معاملے میں ایسی سختی کی اجازت نہیں دیتا۔

ایرانی قوم کو مسعود پزشکیان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں کیونکہ وہ مغرب سے تعلقات بہتر بنانے کا عندیہ دے چکے ہیں اور قومی معیشت کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے اہم ایشوز پر گفت و شنید کی بات بھی کرچکے ہیں۔ انہیں دو سابق صدور حسن روحانی اور محمد خاتمی کی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سابق وزیر خزانہ جواد ظریف بھی ان کی حمایت کرتے ہیں۔

عام خیال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس بار بھی انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ جمعرات کو دو امیدواروں کے انتخابی دوڑ سے الگ ہو جانے کو بھی اِسی تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ مسعود پزشکیان کے بڑے حریف محمد باقر موجودہ اسپیکر اور پاس دارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر ہیں۔ جوہری مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کرنے والے سعید جلیلی بھی صدارتی انتخاب کی دوڑ میں شریک ہیں۔

ایرانیوں کو مسعود پزشکیان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں مگر ابھی پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا کہ وہ اپنے وعدے نبھا بھی پائیں گے اور یہ کہ وہ ویسے ہی ہیں جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کھڑا کیا ہو۔

ایران میں صدارتی انتخابات کے دوران ٹرن آؤٹ کے بہت کم ہونے کی شکایت رہی ہے۔ سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے عوام سے کہا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں گھروں سے نکلیں اور ووٹ کاسٹ کریں۔

ایران کی نئی نسل قدامت پسندی کا خاتمہ چاہتی ہے۔ متوسط طبقے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ایسے میں صدارتی انتخابی بہت حد تک نظریاتی معرکہ آرائی کے روپ میں دیکھا جانا چاہیے۔ نئی نسل چاہتی ہے کہ حقیقی تبدیلی رونما ہو۔ 2022 میں مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں موت کے بعد ہنگامے پھوٹ پرے تھے۔ اس سے عوام اور ریاستی مشینری کے درمیان خلیج مزید وسیع ہوگئی گھی۔

مظاہرین کے خلاف پُرتشدد کارروائیوں نے حکومت سے متعلقہ خیالات کو مزید تقویت دی، خصوصاً نوجوان نسل میں۔ عوام میں مجموعی طور پر مایوسی اس لیے ہے کہ ماضی میں اصلاح پسندوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ اس بار سابق صدر حسن روحانی کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مسعود پزشکیان کو محض اس لیے صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی ہے کہ ٹرن آؤٹ بہترہوسکے۔

MASOOD PEZESHKIAN

REFORMIST

AN ESTABLISHMENT PLOY

CHANGE WANTED