سینیٹ قائمہ کمیٹی نے فلاحی اسپتالوں پر سیلز ٹیکس لگانے کی حمایت کردی، بچوں کے دودھ پر ٹیکسز میں اضافہ مسترد
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے فلاحی اسپتالوں پر سیلز ٹیکس لگانے کی حمایت کر دی ہے۔
ہفتہ کو سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں کمیٹی نے خیراتی اور فلاحی اسپتالوں پر سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی حمایت کی۔
اس موقع پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ایک ٹرسٹی اسپتال نے 20 لاکھ کا بل ادا کرنے تک میت ورثا کو نہیں دی، اگر حکومت ٹیکس چھوٹ دیتی رہی ہے تو ان اسپتالوں کا آڈٹ بھی کرے۔
سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ اسپتالوں نے ڈاکٹرز بھی بٹھائے ہوئے ہیں جو بھاری فیس لیتے ہیں اور ٹرسٹ کے نام پر ان کی لیبارٹریز مہنگی فیس چارج کرتی ہیں۔
اجلاس کے دوران ایف بی آر حکام نے بتایا کہ سرکاری اسپتال سیلز ٹیکس ادا کر رہے ہیں، مگر بڑے بڑے پرائیویٹ اسپتال سیلز ٹیکس ادا نہیں کرتے۔
ایف بی آر حکام نے کمیٹی اراکین کو بتایا کہ ملک کے بڑے اور مہنگے اسپتال ٹرسٹ پر قائم ہیں جن کے لیے اب ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے۔
اجلاس کے دوران سینیٹر انوشے رحمان نے سوال کیا کہ کیا قبر پر بھی ٹیکس لگایا جا رہا ہے؟ جس پر سینیٹر فاروق ایچ نائیکل بولے کہ وہ وقت بھی دور نہیں جب قبر پر بھی ٹیکس لگے گا، ابھی آئی ایم ایف کو اس کا پتا نہیں ہے۔
انہوں نے طنزیہ کہا کہ کراچی میں قبر کھودنے والے گورکن پر بھی ٹیکس لگنا چاہئیے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر ہر چیز پر ہی ٹیکس لگایا جا رہا ہے۔
اجلاس میں بچوں کے دودھ، کاپی پینسل اور سٹیشنری آئٹمز پر ٹیکسز پر بھی غور ہوا۔
ایف بی آر حکام نے بتایا کہ بچوں کے فارمولا دودھ پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگایا جارہا ہے، اسٹیشنری آئٹمز پر 10 فیصد جی ایس ٹی لگایا جا رہا ہے۔
ایف بی آر حکام نے کہا کہ مختلف اشیاء پر چھوٹ ختم کرنے سے 107 ارب روپے آمدن ہوگی، آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے لیے ٹیکس چھوٹ ختم کی جا رہی ہے، آئی ایم اہف نے 749 اشیاء پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
حکام نے مزید کہا کہ دودھ پر ٹیکس بڑھانے سے 40 ارب کا ریونیو آئے گا، پینسل کاپیوں سٹیشنری پر ٹیکس بڑھانے سے 7 ارب روپے ریونیو آئے گا۔
خزانہ کمیٹی نے بچوں کے دودھ پر ٹیکسز میں اضافہ مسترد کردیا۔
سینیٹر شیریں رحمان نے کہا کہ دودھ پر ٹیکس لگانے سے بچوں کی نشوونما پر منفی اثر پڑے گا۔
کمیٹی ارکان نے سٹیشنری آئٹمز پر بھی ٹیکس نہ لگانے کی تجویز دے دی۔
سینیٹر اخونزاداہ چٹان نے سینیٹ کی خزانہ کمیٹی میں تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ فاٹا و پاٹا میں ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے، ایف بی آر فاٹا و پاٹا کے لیے ٹیکس چھوٹ کی مخالفت کرتا ہے، لیکن ان علاقوں کے لیے ایسے پیکجز ہونے چاہئیں کہ وہ ترقی کر سکیں، ان علاقوں کو انڈسٹری دیں تاکہ سرمایہ دار ترقی کریں، فاٹا و پاٹا کے لیے چار سے 5 سالہ پلان ہونا چاہئیے۔
جس پر چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ٹیکس چھوٹ کا فائدہ فاٹا کو نہیں ہوتا، فاٹا کو ٹیکس چھوٹ کا فائدہ صرف چند لوگوں کو ہوتا ہے۔
سینیٹر اخونزادہ نے کہا کہ میں اعتراف کرتا ہوں کہ وہاں اسٹیل میں ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال ہوتا ہے، فاٹا میں ان پٹ پر 6 فیصد کی بجائے 3 فیصد ٹیکس کر دیا جائے۔
Comments are closed on this story.