برطانیہ کا مالدار ترین خاندان مشکلات کا شکار، انسانی اسمگلنگ کے الزام کا سامنا
برطانیہ کے مالدار ترین خاندان کو انسانی اسمگلنگ کے الزام میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہندوجا فیملی کے چار افراد کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے۔ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ گھریلو ملازمین سے زیادہ کتوں پر خرچ کرتے ہیں۔
ایک اخبار کے مطابق ہندوجا فیملی پر لگائے جانے والے الزامات بہت سنگین ہیں کیونکہ سوئٹزر لینڈ میں انسانی اسمگلنگ سنگین جرم ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان پر گھریلو ملازمین کے استحصال کا بھی الزام ہے۔
ہندوجا فیملی برطانیہ کے مالدار ترین خاندانوں میں لگاتار تیسرے سال پہلے نمبر پر ہے۔ اس خاندان کے اثاثے اب 2 ارب پاؤنڈ کے اضافے سے 37 ارب 19 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ تک پہنچ چکے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا کے ایک پُرتعیش علاقے میں ہندوجا فیملی کا شاندار بنگلہ ہے جس میں کام کرنے کے لیے بھارت سے نوکر لائے جاتے ہیں۔ یہ کیس اسی حوالے سے ہے۔
پرکاش اور کمل ہندوجا، بیٹے اجے اور بہو نمرتا پر گھر کے نوکروں کے پاسپورٹ ضبط کرنے اور روزانہ اٹھارہ گھنٹے تک کام لینے پر بھی صرف محض آٹھ ڈالر اجرت دینے کا الزام ہے۔ ایک اہم الزام یہ بھی ہے کہ ان تمام نوکروں کی نقل و حرکت کو محدود رکھا جاتا ہے۔ گھر سے انہیں بہت کم نکلنے دیا جاتا ہے۔
مالی تصفیہ طے پاچکا ہے تاہم انسانی اسمگلنگ کا الزام اب تک زیرِ سماعت ہے اور فیصلہ ہونا باقی ہے۔ یہ فیملی اپنے کتے پر سالانہ 10 ہزار ڈالر تک خرچ کرتی ہے۔
ہندوجا فیملی کے وکلا نے کم اجرت کے الزام کی تردید سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاملات کا پس منظر بھی دیکھنا چاہیے کیونکہ گھریلو نوکروں کو رہائش اور کھانا بھی تو فراہم کیا جاتا ہے۔ وکلا نے اٹھارہ گھنٹے کام لینے کے الزام کو بھی بے بنیاد قرار دیا ہے۔
راولپنڈی: مجرم کو انسانی اسمگلنگ پر 43 سال قید کی سزا
چند سابق ملازمین نے ہندوجا فیملی کے رویے کو دوستانہ قرار دیا ہے۔ عدالت میں انہوں نے کہا کہ یہ فیملی ملازمین کا احترام کرتی ہے۔
حکومت کو انسانی اسمگلنگ کے روک تھام سے متعلق پالیسی مرتب کرکے دینا ہوگی، چیف جسٹس
ہندوجا فیملی سخت مشکل میں ہے کیونکہ جنیوا کے معروف پراسیکیوٹر یوویز برٹوسا نے سزائے قید، لاکھوں ڈالر ہرجانے اور قانونی کارروائی کی فیس کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
Comments are closed on this story.