نیٹ میٹرنگ پر بیوروکریسی اور سیاستدانوں میں جنگ، 6 فارمولے زیر غور
باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے مسئلے پر وفاقی حکومت کو پریشان کن صورتِ حال کا سامنا ہے کیونکہ اس حوالے سے بیورو کریٹس اور سیاست دانوں کے درمیان جنگ کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے 6 فارمولے زیرِغور ہیں۔
بیوروکریسی کا موقف یہ ہے کہ شمسی توانائی کے فروغ سے ملک میں توانائی کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہوگا۔ سیاست دان اس منطق یا دلیل کو قبول نہیں کر رہے۔
آسٹریلیا میں بھی سولر سے زیادہ بجلی پیدا کرنے والوں کو حکومتی کارروائی کا سامنا
روزنامہ بزنس ریکارڈر کی ایک رپورٹ کے مطابق بیورو کریٹس اور حکومتی شخصیت سے قربت رکھنے والے افسران کے مطابق نیٹ میٹرنگ اب اسلام آباد کے لیے ایک بڑے دردِ سر میں تبدیل ہوگئی ہے۔
بیورو کریسی نے، بظاہر توانائی کے شعبے کو بچانے کے لیے، تجویز کیا ہے کہ شمسی توانائی کا نظام مرحلہ وار پھیلانے اور بائی بیک میکینزم کے لیے آسٹریلین ماڈل اپنایا جائے۔ آسٹریلیا میں سولر پینلز سے زیادہ بجلی بنانے والوں پر حکومت جرمانے کر رہی ہے۔
وزیرِاعظم کی میز پر رکھی جانے والی ایک تجویز یہ بھی ہے کہ بجلی کے بل یونٹس کے بجائے نیٹ میٹرنگ کے تناظر میں طے کیے جائیں۔ شمسی توانائی کے نرخ حکومت حتمی طور پر متعین کرے گی۔
واضح رہے کہ پاور ڈویژن جس نے پچھلے ماہ نیٹ میٹرنگ کے ریٹ کم کرنے تجویز دی تھی کو 6 نکات پر صورت حال واضح کرکے سمری پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یہ نکات ایک طرح سے چھ مختلف فارمولوں پر مبنی ہیں۔
پہلا فارمولہ یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کو گراس میٹرنگ سے تبدیل کردیا جائے۔ یعنی سولر سسٹم لگانے والوں کے لیے دو میٹر ہوں گے، ایک سے وہ اپنی تمام بجلی گرڈ کو بھیجیں گے اور دوسرے سے وہ عام صارف کی طرح بجلی خریدیں گے۔
دوسرا فارمولہ یہ ہے کہ سولر کیلئے ایک الگ ٹیرف کیٹگری بنا دی جائے۔
تیسرا یہ ہے کہ سولر سسٹم لگانے والوں پر فکسڈ چارجز عائد کردیئے جائیں۔
چوتھا یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے نرخوں پر نظر ثانی کی جائے۔
پانچواں یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کی ریگولیشنز پر نظر ثانی کی جائے۔
چھٹا یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے ریٹ مقرر کرنے کا طریقہ کار ایک ڈائنامک فارمولے کے تحت رکھا جائے تاکہ یہ نرخ مختلف عوامل کی بنا پر کم یا زیادہ ہو سکیں گے۔
پاور ڈویژن ان تمام نکات یا فارمولوں پر مبنی جو رپورٹ پیش کرے گا، اس کی بنیاد پر حکومت اگلا قدم اٹھا سکتی ہے۔
پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ جس رفترا سے سولر سسٹم لگ رہے ہیں وہ اتنی زیادہ ہے کہ گویا مارکیٹ میں ایک نیا بجلی پیدا کرنیوالا کارخانہ لگ گیا ہے لیکن بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے پاس ایسا نظام نہیں ہے جو اس اضافی بجلی کا بوجھ اٹھا سکے، خاص طور پر ان کے ٹرانسفارمرز پر اضافی بوجھ پڑ رہا ہے اور بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو ٹرانسفارمرز تبدیل کرنے کیلئے مزید سرمایہ کاری کرنا پڑے گی۔
بیوروکریسی کے لیے پریشانی یہ ہے شمسی توانائی سے بجلی پیدا ہونے سے صرف کیپسٹی پے منٹ کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ تکنیکی مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں۔
سولر پینلز سے بجلی صرف دن کے وقت پیدا ہوتی ہے اور رات کے وقت گرڈ سے طلب بڑھ جاتی ہے۔
ایک تجویز یہ ہے کہ کیپٹو پاور پلانٹس یعنی نجی بجلی گھروں کو دن کے وقت کم سے کم بجلی پیدا کرنے کے لیے کہا جائے تاکہ رات کو وہ زیادہ بجلی پیدا کر سکیں۔
اسی طرح گیس کی کھپت بھی دن کے وقت محدود رکھی جائے۔
لیکن رات کے وقت تھرمل بجلی گھروں سے جو اضافی بجلی پیدا کی جائے گی اس کی لاگت کو تمام صارفین پر تقسیم کرنا ہوگا۔ یہ تقسیم Ancillary Charges کے نام پر ہوگی۔
Comments are closed on this story.