آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی مخصوص نشستیں مانگ سکتی تھی، چیف جسٹس
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی الیکشن کروالیتے تو سارے مسئلے حل ہوجاتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 13 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کررہا ہے۔
جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، اطہر من اللہ، سید حسن اظہر رضوی، شاہد وحید، عرفان سعادت خان اور نعیم اختر افغان فل کورٹ کا حصہ تھے جبکہ جسٹس مسرت ہلالی علالت کے باعث بینچ کا حصہ نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا
دوران سماعت سنی اتحاد کونسل کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے دلائل شروع کرنے کے لیے ججز کو لارڈ شپ کہہ کر مخاطب کیا تو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کر دیا اور کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں، وقت بچایا جا سکتا ہے۔
جس پر فیصل صدیقی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کل مجھے کچھ بنیادی قانونی سوالات فریم کرنےکا کہا گیا تھا۔
جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ پہلےکیس کے مکمل حقائق سامنے رکھ دیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ کل سوال تھاپی ٹی آئی نے بطورجماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا، سلمان اکرم راجہ نے اسی متعلق درخواست دی تھی جومنظورنہیں ہوئی۔
اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحادنےالیکشن نہیں لڑا، وکیل فیصل صدیقی
فیصل صدیقی نے کہا کہ اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحادنےالیکشن نہیں لڑا، سنی اتحاد نےمخصوص نشستوں کیلئے پہلے فہرست جمع نہیں کرائی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ ’اپنی یہ بات ایک باردہرا دیں‘۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی اس میں کوئی تنازع نہیں ہے سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا،
بس کہیں الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ، ریمارکس چیف جسٹس
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تنازع کی بات کیوں کررہےہیں، بس کہیں الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ سیاسی جماعت اورپارلیمانی پارٹی کےدرمیان ایک تفریق ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار لہا لپ آپ 8 فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ 8 فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے، آزادامیدواروں کی شمولیت کےبعدہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل سنی اتحادکونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرےکیخلاف بھی کھڑےہو سکتے ہیں، سیاسی اورپارلیمانی جماعت کیلئےکیاآئین میں الگ تشریح ہے، سیاسی اورپارلیمانی جماعت میں فرق بتائیں، آپ کی جماعت سیاسی ہے یاپارلیمانی ہے، آپ کی پارلیمانی جماعت کاسربراہ کون ہے، فیصل صدیقی صاحب آپ دوسروں سےکیوں پوچھ رہے ہیں۔
کیا آپ کوپارلیمانی جماعت کے سربراہ کاپتا ہی نہیں ہے، چیف جسٹس
جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ پٹیشنرکیس کےسربراہ ہیں سیاسی جماعت کےیاپارلیمانی جماعت؟ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ پٹیشنرسیاسی جماعت کےسربراہ ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمانی جماعت کےالیکشن کیسے ہوتےہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سرمیرےعلم میں نہیں ہےمعلوم کرناپڑےگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین میں پولیٹیکل اورپارلیمانی پارٹی کاتذکرہ کہاں ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل17اور63اےمیں بھی اس کاذکرہے۔ جسٹس اطہر نے ریمارکس دیے کہ کیایہ ممکن ہےکوئی پارلیمانی پارٹی ہواورسیاسی پارٹی نہ ہو۔ جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمانی پارٹی اورسیاسی پارٹی علیحدہ کیوں ہے، آپ کےخیال کی کیا ضرورت ہے یہ 63 اے میں لکھا ہوا ہے۔
8 فروری کوسنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت تھی بعدمیں پارلیمانی جماعت بن گئی، وکیل
وکیل نے جواب دیا کہ 8 فروری کوسنی اتحاد کونسل سیاسی جماعت تھی بعدمیں پارلیمانی جماعت بن گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہرحلقے میں آزاد امیدوار نےبلےکانشان کیوں نہیں مانگا۔ وکیل نے جواب دیا کہ ہمارےخیال میں سپریم کورٹ کےاحکامات کی نفی ہوجاتی۔
جسٹس عائشہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن ایکٹ کےتحت ایک پارٹی کاآلاٹ نشان کسی اورکو نہیں دیاجاسکتا۔
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد تھے یا نہیں، چیف جسٹس اور جسٹس منیب میں اختلاف
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ کاغذات میں کوئی خود امیدوارظاہرکرے ٹکٹ جمع کرائے توجماعت کاامیدوار تصورہوگا، آزاد امیدوار وہی ہوگا جوبیان حلفی دےگا کہ کسی سیاسی جماعت سےتعلق نہیں، سنی اتحاد میں شامل ہونیوالوں نے کاغذات میں خود کو پی ٹی آئی امیدوارظاہر کیا، کاغذات بطورپی ٹی آئی امیدوارمنظورہوئےاورلوگ منتخب ہوگئے۔
جسٹس منیب نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن رولزکیسے پی ٹی آئی امیدواروں کوآزاد قراردے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہویانہ ہو وہ الگ بحث ہے، کل سےمیں یہی سمجھانے کی کوشش کررہا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دے کہ اس حساب سےسنی اتحادکونسل میں پی ٹی آئی کےکامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوارہی شامل ہوسکتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نےکس بنیادپرامیدواروں کوآزاد قراردیاتھا؟
بلے کےنشان کی واپسی: درخواست کو لارجر بینچ کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت
دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ میں بلے کےنشان کی واپسی اورانٹرا پارٹی الیکشن کیخلف کارروائی پرسماعت ہوئی اور عدالت نے درخواست کو لارجر بینچ کے روبرو پیش کرنے کی ہدایت کردی۔
جسٹس عابد عزیز شیخ نے یمارکس دیے کہ اسی نوعیت کی درخواست پہلے سے لارجر بینچ کے پاس زیر سماعت ہے، سپریم کورٹ کی آبزرویشن تھی کہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست پینڈنگ ہوتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کیسے گئے۔
عدالت نے کہا کہ درخواستگزار کے مطابق معاملہ اہم نوعیت کا ہے اور آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مناسب احکامات کے بعد درخواست کو لارجر بینچ کے پاس بھجوائیں، لارجر بینچ ہی درخواست پر عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق فیصلہ کرے گا۔
انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہوجاتے، چیف جسٹس
دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا انٹراپارٹی الیکشن نہ کرائیں، انٹرا پارٹی الیکشن کروا لیتے سارے مسئلے حل ہوجاتے، اصل اسٹیک ہولڈرووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں، پی ٹی آئی مسلسل شکایت کررہی تھی لیول پلئنگ فیلڈ نہیں مل رہی، وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں۔
انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں، ہمیں دیکھنا ہےووٹرزکے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا، ایک جماعت مسلسل شفاف موقع نہ ملنے کا کہہ رہی تھی اوریہ پہلی بارنہیں تھا، آپ کی دشواری یہ ہےکہ آپ خودکوتحریک انصاف امیدوارظاہرکرنا چاہتےتھے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے آپ کوکہا تحریک انصاف کوبلا نہیں ملا توآپ کونہیں دےسکتے، خود کوتب آزاد امیدوارڈیکلیئرکرتے اوربیٹ مانگ لیتے، قانون نےکہا پارٹی میں انتخابات کروا لیں،قانون ہم نےنہیں آپ نےبنایا، میں آپ کومشورہ ہی دےسکتاہوں،پہلے بھی دورانِ سماعت مشورے دیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نےخود کو تحریک انصاف ظاہرکرنا چاہیے، آپ کم سےکم بلےکا نشان مانگتے توصحیح ، ملنا نہ ملنا سپریم کورٹ بعد میں دیکھتی، آپ مختلف پارٹی سےمنسلک ہونا چاہ رہے، آپ اب آزادا میدوارنہیں، خود کوتحریک انصاف کا امیدوارظاہرکیا توبطورآزاد امیدوارنہیں، آپ پارٹی کوٹھکرا کر آرہے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ آزادامیدوارسنی اتحادکونسل میں نہ جاتےتوپی ٹی آئی کاکیس اچھاتھا، پی ٹی آئی جاکرکہہ سکتی تھی یہ ہمارےلوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پرپی ٹی آئی کایہ مؤقف مسترد ہوتا، یہ لوگ سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تومخصوص نشستوں کاکیاہوتا؟ یاتوآپ کہیں ایوان کومکمل نہیں کرناتوبات ختم ہے۔
چیف جسٹس نے سماعت 24جون تک ملتوی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ 24جون سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی، 24جون والےہفتےمیں اورکوئی کیس نہیں رکھیں گے۔
Comments are closed on this story.