نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت 6 جون کو مقرر
سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ ترتیب دیا گیا ہے، 5 رکنی لارجر بینچ 6 جون کو دن ساڑھے 11 بجے حکومت کی طرف سے دائر اپیلیوں پر سماعت کرے گا۔
جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بھی بینچ کا حصہ ہوں گے۔
گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی کارروائی مکمل ہونے کے بعد سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کی تھی، چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگلی تاریخ کا اعلان شیڈول دیکھ کر کریں گے۔
نیب ترامیم کیس: سپریم کورٹ نے سماعت براہ راست دکھانے کی خیبرپختونخوا کی درخواست مسترد کردی
خیال رہے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر پچھلی 2 سماعتوں کے دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہورہے ہیں، گزشتہ روز عمران خان اور چیف جسٹس کے درمیان مکالمہ بھی ہوا تھا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے چیف جسٹس کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جیل میں قید تنہائی میں رہ رہا ہوں، قانونی ٹیم سے ملاقات نہیں کرنے دی جارہی، نہ لائبریری ہے اور نہ کوئی سورس ہے کہ کیس کی تیاری کی جاسکے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ایک کرنل صاحب ہیں جو جیل میں ون ونڈو آپریشن چلارہے ہیں، مجھے اپنی قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے دیں۔ وہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے نہیں دیتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو تمام چیزیں مہیا کردی جائیں گی اور قانونی ٹیم سے ملاقات کا بھی آرڈر کردیتے ہیں۔ جس کے بعد عدالت نے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی تھی۔
واضح رہے کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور سابق مستعفی جج اعجاز الاحسن نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کو درست قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔
تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔
کیس کا پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں۔
ریاست مخالف ویڈیوکی تشہیر : عمران خان کا ایف آئی اے ٹیم سے ملنے سے انکار
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے۔
بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔
درخواست میں عدالت سے نیب ترامیم کو بحال کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اپنایا گیا کہ نیب ترامیم میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور قانون سازی پارلیمان کا اختیار ہے۔
اپیل میں فیڈریشن، نیب اور سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ پارلیمانی اختیار سے متجاوز ہے۔
Comments are closed on this story.