Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہو جاتا تو 9 مئی نہ ہوتا، چیف جسٹس

تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نہیں، فیض حمید کے بیان پر رپورٹ تیار کردی، چیف جسٹس قاضی فائز
اپ ڈیٹ 06 مئ 2024 03:49pm

سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا فیصلے پر عملدرآمد کیس کی سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نظر نہیں آرہی، رپورٹ میں لکھا ہے ٹھوس شواہد نہیں ملے، تحقیقاتی کمیٹی نے ہمارا وقت ضائع کیوں کیا۔ کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ فیض آباد دھرنا فیصلے پر عمل ہو جاتا تو 9 مئی نہ ہوتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس کی سماعت کی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تحقیقاتی رپورٹ پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں کوئی فائنڈنگ نظر نہیں آر ہی، تحقیقاتی کمیٹی نے ہمارا وقت ضائع کیوں کیا، اس کمیشن نے کسی چیز پر کوئی فائنڈنگ نہیں دی، مجھے کہیں بھی اس کمیشن کی فائنڈنگ نظر نہیں آرہی ہے، کمیشن کو معلوم ہی نہیں ان کی ذمہ داری کیا تھی، کمیشن نے فیض حمید کے بیان کی بنیاد پر رپورٹ تیار کردی۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ شہادتوں اور ثبوتوں کو سامنے لانا کمیشن کا کام تھا۔ پاکستان کا کتنا نقصان ہوا، کسی کو پرواہ ہی نہیں، ایک انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے، یہاں 18 بچے مر گئے، کہا جاتا ہے آگے چلیں، بھئی پیچھے سے سبق سیکھیں، جو ماضی سے سبق نہیں سیکھتا اسے سکھایا جاتا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پیمرا ویسے تو پھرتی میں ہوتا ہے یہاں انہیں کچھ نظر نہیں آیا، کمیشن کے ممبرز کیا کر رہے ہیں کیا تقریر جھاڑ رہے ہیں، آپ کا کام تھا کہ ذمہ دار کا تعین کریں، آپ پارلیمان، عدالت کے پاور لے رہے ہیں، جو کام تھا وہ نہیں کر رہے اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہےہیں۔

’یہ کہہ رہے ہیں ان سب چیزوں کا قصور وار رانا ثنا اللہ ہے‘

چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ احتجاج کا حق آئین بھی دیتا ہےاس سے کوئی نہیں روکتا، یہ کہہ رہے ہیں کہ پنجاب سے اسلام آباد نہیں آسکتے تھے، یہ کہہ رہے ہیں ان سب چیزوں کا قصور وار راناثنا اللہ ہے، کمیشن کی انگریزی کمزور ہے تو اردو میں لکھ دیتے۔

انہوں نے سارا نزلہ پنجاب سرکار پر گرایا ہے، عدالت

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اپنےعہدے کی خلاف ورزی کس نے کی یہ تو لکھیں، اس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ کیا پنجاب حکومت احتجاج کررہی تھی؟ کیا پنجاب حکومت پتھراؤ اور گاڑیوں کو آگ لگا رہی تھی، اس وقت پنجاب کی سرکار کون تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس وقت شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔

یاد رہے کہ اتوار کے روز فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کی رپورٹ بذریعہ اٹارنی جنرل آفس سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی۔

فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں ن لیگی کی وفاقی اور صوبائی حکومت میں اختلافات کا انکشاف

فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن رپورٹ 150 صفحات پر مشتمل ہے، انکوائری کمیشن نے 33 گواہان کے بیانات کی روشنی میں رپورٹ تیار کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق انکوائری کمیشن کو کسی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے، لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید نے صرف بطور ثالث کردارادا کیا اور انہیں ڈی جی آئی ایس آئی اور آرمی چیف کی اجازت حاصل تھی۔

انکوائری کمیشن نے رپورٹ میں نتائج اخذ کرنے کے ساتھ 33 سفارشات بھی پیش کی ہیں۔

واضح رہے کہ 16 اپریل کو تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے فیض آباد دھرنا کمیشن نے اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو بھجوا دی تھی جس میں دیگر چیزوں کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کام کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قانون سازی اور قواعد و ضوابط کا مسودہ تیار کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔

رواں سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ فائنل کر کے سپریم کورٹ میں جمع کرانی تھی، وفاقی حکومت نے مقرر وقت میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی تاریخ پر فیض آباد کمیشن رپورٹ کو حتمی شکل نہیں دے سکتا، انکوائری کمیشن کی مدت میں توسیع کی جائے۔

قبل ازیں 22 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کو رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی تھی۔

‏سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس سماعت کیلئے مقرر، فریقین کو نوٹس جاری

واضح رہے کہ 15 نومبر کو سپریم کورٹ میں فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 2017 کے دھرنے سے متعلق اس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے حکومت نے کمیشن تشکیل دے دیا ہے۔

فیض آباد دھرنا

یاد رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔

فیض آباد دھرنے میں دوسرے اداروں کے کردار کی پولیس افسر نے تردید کردی

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا کمیشن سے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی

27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔

سیکرٹری دفاع کا سروسز چیفس کو خط، 2017 دھرنے کے متعلقہ افسران کیخلاف کارروائی کی ہدایت

حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کمیشن میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، 2 ریٹائرڈ سابق آئی جیز طاہر عالم خان اور اختر شاہ شامل ہیں۔

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو موصول نوٹی فکیشن کے ٹی او آرز کے مطابق کمیشن کو فیض آباد دھرنا اور اس کے بعد ہونے والے واقعات کے لیے ٹی ایل پی کو فراہم کی گئی غیر قانونی مالی یا دیگر معاونت کی انکوائری کا کام سونپا گیا۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 22 نومبر کو فیض آباد دھرنے کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

7 فروری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے 2017 میں فیض آباد میں دیے گئے دھرنے کے خلاف ازخود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ ایجنسیوں اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی شخص جو فتویٰ جاری کرے جس سے ’ کسی دوسرے کو نقصان یا اس کے راستے میں مشکل ہو’ تو پاکستان پینل کوڈ، انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 اور/ یا پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 کے تحت ایسے شخص کے خلاف ضرور مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ قانون کی جانب سے عائد کی گئی ’معقول پابندیوں‘ میں رہتے ہوئے شہریوں کا یہ حق ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں بنائیں اور اس کے رکن بنیں۔

Supreme Court

اسلام آباد

Justice Qazi Faez Isa

faizabad dharna case

Chief Justice Qazi Faez Isa

Faizabad Dharna Commission