Aaj News

اتوار, نومبر 24, 2024  
21 Jumada Al-Awwal 1446  

نسلہ ٹاور زمین بیچ کر متاثرین کو ادائیگی، نالہ متاثرین کو ایک ماہ میں الاٹمنٹ دی جائے، سپریم کورٹ

متاثرین کی فہرست سے غائب افراد کو فوکل پرسن سے رجوع کرنے کی ہدایت
اپ ڈیٹ 25 اپريل 2024 03:15pm

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی ہے، جبکہ نسلہ ٹاور کے متاثرین کو زمین فروخت کرکے معاوضے کی ادائیگی کا حکم دے دیا۔ عدالت نے نالہ متاثرین کے معاملے پر بھی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سمیت تین رکنی بینچ کے مختلف زیر التوا معاملات کی سماعت کی۔

سب سے پہلے عدالت نے حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست پر سماعت کی۔

درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے درخواست گزاروں کے وکیل کی جانب سے اطمینان بخش جواب نہ ملنے پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھیں گے سرکاری محکمے کر کیا رہے ہیں اورسرکاری ادارے کیا کر رہے ہیں، یہ صرف ملازمین کو پال رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کیس میں ریمارکس دئے کہ ملازمین کو بٹھا کر تنخواہیں دی جارہی ہیں جبکہ حکومت کے پاس کچھ کرنے کو چار آنے نہیں، کہا جاتا ہے خدمت کررہے ہیں، ایک ایک اسامی پر تین تین ملازمین بھرتی کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ سرکاری نوکریاں ان کو پکڑائی ہوتی ہیں جو قابل ہی نہیں ہوتے، غیرقانونی بھرتیوں کا بوجھ سندھ کے عوام پر کیوں ڈالیں؟

وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ صدر اور گورنر کے پیکج کے تحت بھرتیاں ہوئیں، جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ صدر اور گورنر کے پاس کیا اختیار ہے؟ کیا ان کے پاس اپنے پیسے تھے؟ آئین کی دھجیاں اڑائیں گے تو ہم اجازت نہیں دیں گے۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس چیز کی بنیاد ہی غلط ہو پھر یہی ہوتا ہے، چیز قائم نہیں رہ سکتی، صوبے کے لوگوں کی بات کریں انہیں مل کیا رہا ہے؟ سڑکیں ، پانی ، بجلی کیا مل رہا ہے؟ کیا سارا پیسہ تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟

عدالت نے برطرفی کے خلاف حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ملازمین کی درخواست مسترد کردی

تجاوزات کیس کی اہم سماعت

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں دو سال چار ماہ بعد آج کراچی تجاوزات کیس کی سماعت بھی ہورہی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے شہر بھر سے تجاوزات کے خاتمے کی رپورٹ طلب کی تھی، جو سیکریٹری، میئر کراچی، ڈی جی کے ڈی اے اور ایس بی سی اے حکام نے آج عدالت میں پیش کی۔

سابق چیف جسٹس گلزار احمد نے تمام رفاہی پلاٹوں، پارکس اور فٹ پاتھوں سے قبضہ ختم کرانے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ نے تجاوزات ختم کرنے اور کراچی سرکلر ریلوے بھی بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر میں غیر قانونی تجاوزات کے معاملے پر سماعت شروع ہوئی تو کمرہ عدالت وکلا اور درخواست گزاروں سے بھر گیا۔

جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا لوگ باہر نہیں جا سکتے؟

عدالت میں شور پر چیف جسٹس برہم بھی ہوگئے اور کہا کہ کون بات کر رہا ہے؟ جو بات کر رہا ہے باہر جائے۔

سماعت کا آغاز کرتے ہوئے چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو کیس کے بارے میں بریفنگ دینے کا کہا۔

جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ اس کیس سے جڑے بہت سے فیصلوں پر عملدرآمد ہو گئے ہیں، گجر نالہ سمیت تین نالوں پر سے تجاوزات ختم ہو گئی ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ درخواست گزار کی نمائندگی کون کر رہا ہے؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ہم کہاں سے شروع کریں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ آخری فیصلوں سے شروع کرتے ہیں۔

اس کے بعد عدالت میں نالہ متاثرین کا سابقہ فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ تخمینے کے لئے پاکستان انجینئرنگ کونسل کو بھیجا گیا تھا۔

جس پر چیف جسٹسنے استفسار کیا کہ کب بھیجا؟ اور مزید کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے اتنا سا کام نہیں ہو رہا۔

متاثرین کے وکیل نے کہا کہ 4.2 ملین روپے نالہ متاثرین کو دیے جائیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پیسے کس نے دینے ہیں؟ جواباً وکیل نے کہا کہ ’سندھ حکومت نے دینے ہیں‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سندھ حکومت نے نہیں عوام نے دینے ہیں‘۔

جو متاثرین پلاٹ لینا چاہتے ہیں انہیں دے دیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتنے نالہ متاثرین ہیں؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 6 ہزار سے زائد نالہ متاثرین ہیں۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا نالے پر تعمیرات قانونی تھیں؟

ایڈووکیٹ جنرل سندھ بولےغیر قانونی تعمیرات تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ انہیں پلاٹ تو دے دیں۔ جس پر ایڈووکیٹ جنرل بولے کہ ہم تو دینے کے لئے تیار ہیں۔

اس دوران عدالت نے سماعت میں مداخلت پر ایک درخواست گزار کو جھاڑ دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں کسی کو تقریر کی اجازت نہیں، تقریر نہ کریں اپنی استدعا بتائیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ گھر گرا دیا گیا لیکن متاثرین کی لسٹ میں میرا نام نہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جن کے نام متاثرین کی فہرست میں نہیں ان کے لئے ایک ضابطہ موجود ہے، کمشنر کا فوکل پرسن ان معاملات کو ڈیل کرتا ہے، یہ فوکل پرسن اے ڈی سی 2 کمشنر کراچی کے دفتر میں موجود ہوتا ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ متاثرین کی فہرست میں رہ جانے والے نام ایک ماہ میں کمشنر کے فوکل پرسن سے رجوع کریں۔

چیف جسٹس نے اس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ جو پلاٹ لینا چاہتے ہیں ان کو پلاٹ دے دیں۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 6932 مجموعی نالہ متاثرین ہیں، یہ اربوں میں پیسے ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اتنے پیسے ہیں آپ کے پاس؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل بولے کہ پہلے نہیں تھے اب بحریہ ٹاؤن کے آرڈر کے بعد ہیں۔

نسلہ ٹاور کی زمین فروخت کرکے متاثرین کو ادائیگی کا حکم

سپریم کورٹ رجسٹری میں نسلہ ٹاور کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے معاملے پر بھی سماعت ہوئی، جس میں عدالت نے نسلہ ٹاور کی زمین فروخت کرکے متاثرین کو ادائیگی کا حکم دے دیا۔

دوران سماعت متاثرین کے وکیل ایڈووکیٹ شہاب سرکی نے عدالت کو بتایا کہ بلڈر عبدالقادر کاٹیلا کا انتقال ہوچکا ہے اور تاحال معاوضہ نہیں ملا، عدالت نے 44 متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔

جس کے بعد سپریم کورٹ نے عمارت کی زمین فروخت کرکے الاٹیز کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ متاثرین ملکیت کے دستاویزی شواہد کے ساتھ آفیشل سے رابطہ کریں۔

عدالت نے نسلہ ٹاور کے پلاٹ کی مارکیٹ ویلیو سے متعلق بھی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور نسلہ ٹاور کی زمین فروخت کرنے کا اشتہار شائع کرانے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی حکم دیا کہ نیلامی میں آنے والی بولی کی بھی رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کمشنر نے زمین تحویل میں لے کر کارروائی مکمل کرکے رپورٹ جمع کرادی تھی۔

متاثرین کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا تھا پلاٹ فروخت کرکے متاثرین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔

وکیل نے استدعا کی کہ نسلہ ٹاور سے ملحقہ 240 گز کا پلاٹ بھی فروخت کرکے متاثرین کو رقم دی جائے۔

جس پر عدالت نے سندھی مسلم کوآپریٹیو سوسائٹی کو نوٹس جاری کردئے اور نسلہ ٹاور سے ملحقہ پلاٹ کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

عدالت نے سندھی مسلم سوسائٹی سے نسلہ ٹاور کے مرحوم بلڈر کے ورثا کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔

تجوری ہائٹس معاوضہ ادائیگی کا کیس

سپریم کورٹ نے تجوری ہائٹس معاوضہ ادائیگی کیس کی سماعت بھی کی۔

اس دوران چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس کا ہے تیجوری ہائئٹ؟

جس پر تیجوری ہائٹس کے وکیل عابد زبیری نے بتایا کہ گورنر سندھ کی اہلیہ کے نام پر تھا پلاٹ۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ نوٹس گورنر ہاؤس بھیجیں کہاں بھیجیں؟ مالک کو ہی متاثرین کا پیسہ دینا ہے، کم از کم اخلاقی تقاضہ تو ہے کہ آپ متاثرین کو پیسے دیں۔۔

وکیل عابد زبیری بولے کہ مجھے کلائنٹ سے انسٹرکشن لینے دیں کچھ وقت دیا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تین سال ہوگئے ہیں یہ آج کا آرڈر تو نہیں ہے، کیا کریں توہین عدالت کا نوٹس بھیجیں؟ آپ چاہتے ہیں توہین عدالت کا نوٹس بھیجیں؟

عابد زبیری نے کہا کہ میں اس درخواست میں وکیل نہیں تھا مجھے ٹائم دیا جائے۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نکالیں عابد زبیری صاحب کا وکالت نامہ، سارا ریکارڈر موجود ہے ہمارے پاس۔

اس دوران چیف جسٹس نے سوال کیا یہ کامرون ٹیسوری کون ہے؟

Supreme Court Karachi Registry

Karachi encroachment case