بھارتی ڈیٹا سائنٹسٹ کو کنجوسی اور بے وقوفی لے ڈوبی
بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک ڈیٹا سائنٹسٹ کو قابلِ رشک آمدنی کے باوجود کنجوسی اور بے وقوفی نے کہیں کا نہ چھوڑا۔ میہُل پرجاپتی کینیڈا کے ٹی ڈی بینک میں کام کرتا تھا۔ سالانہ ایک لاکھ کینیڈین ڈالر کی جاب ہر اعتبار سے قابلِ رشک تھی مگر پرجاپتی نے کنجوسی سے دامن نہ چھڑایا اور خیراتی اداروں سے کھانا لے کر پیٹ بھرتا رہا۔
معاملہ یہاں تک ہوتا تو کچھ نہ تھا۔ پرجاپتی سے بے وقوفی یہ سرزد ہوئی کہ اُس نے مفت ملنے والے کھانے کے بارے میں سوشل میڈیا کی پوسٹس میں فخریہ بتایا کہ وہ ہر ماہ سیکڑوں ڈالر بچانے میں کامیاب رہتا ہے۔ اس نے وڈیو میں وہ سامان بھی دکھایا گیا جو وہ خیراتی اداروں سے بٹورا کرتا ہے۔
کینیڈا میں کم آمدنی والے گھرانوں، نادار افراد اور بالخصوص مشکلات سے دوچار طلبہ کے لیے فوڈ بینک کے نام سے ایسے خیراتی ادارے کام کرتے ہیں جن سے کھانا لیا جاسکتا ہے۔ یہ ادارے گھر کا راشن بھی فراہم کرتے ہیں۔
پرجاپتی نے اپنی چالاکی سے متعلق وڈیو جب سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی تو لوگوں نے شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جو فوڈ بینک مالی مشکلات کا سامنا کرنے والے طلبہ کے لیے کام کرتے ہیں اُن سے کسی ایسے شخص کو مستفید ہونا زیب نہیں دیتا جو سالانہ ایک لاکھ ڈالر کی جاب کرتا ہو۔
جب ٹی ڈی بینک کو پرجاپتی کی سوشل میڈیا پوسٹ کے بارے میں پتا چلا تو اُس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے پرجاپتی کو برطرف کردیا۔ ادارے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ جو کچھ پرجاپتی نے کیا وہ اس ادارے کی اقدار کے خلاف ہے۔ مستحق افراد کے لیے قائم کیے گئے اداروں سے کچھ بھی لینا کسی ایسے انسان کے لیے بالکل ناموزوں ہے جو اچھا کماتا ہو۔ پرجاپتی نے جو کچھ کیا اُس سے ادارہ بدنام ہوا۔
میہُل پرجاپتی کی وڈیو کے وائرل ہونے پر خیراتی اداروں سے کچھ لینے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بھی بحث چھڑگئی۔ بہت سے سوشل میڈیا یوزرز نے کہا کہ ایسا قانون بنایا جانا چاہیے کہ معقول آمدنی والا کوئی بھی شخص خیراتی اداروں سے کچھ وصول نہ کرسکے۔ ایک سوشل میڈیا یوزر نے میہُل پرجاپتی کو ”فوڈ بینک ڈاکو“ قرار دیتے ہوئے اُس کی مذمت کی۔
Comments are closed on this story.