پاکستان اور ایران کا تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق
پاکستان اور ایران کے درمیان 8 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ہیں جبکہ دونوں ممالک نے دوطرفہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی 3 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے، جہاں نور خان ائربیس پر وفاقی وزیر ہاؤسنگ اینڈ ورکس ریاض حسین پیرزادہ نے ان کا استقبال کیا، بعد ازاں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی وزیرِاعظم ہاؤس پہنچے تو وزیرِاعظم شہباز شریف نے مہمان کا استقبال کیا۔
وزیراعظم ہاؤس آمد کے موقع پر مسلح افواج کے دستوں کی جانب سے ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور دونوں ممالک کے قومی ترانے بجائے گئے۔
وزیراعظم ہاؤس میں وفاقی کابینہ کے ارکان کا ایرانی صدر کے ساتھ تعارف کرایا گیا جبکہ ایرانی صدر نے بھی اپنے وفد کے ارکان کو وزیراعظم شہباز شریف سے متعارف کرایا۔
پاکستان آنے والے ایرانی صدر صرف سیاہ گاؤن ہی کیوں پہنتے ہیں؟
اسلام آباد کی ایک شاہراہ کو ایران ایونیو کا نام دے دیا گیا، دونوں شخصیات نے ایران ایونیو شاہراہ کا افتتاح بھی کیا۔ ایرانی صدر اور وزیراعظم شہباز شریف نے ارتھ ڈے کی مناسبت سے پودا بھی لگایا۔
ایرانی صدر کی وزیراعظم کے ساتھ ون آن ون ملاقات
بعد ازاں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی وزیراعظم شہبازشریف کے ساتھ ون آن ون ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان نیک خواہشات کا تبادلہ ہوا۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ عام انتخابات کے بعد آپ پہلے سربراہِ مملکت ہیں جو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم آپ کے اس دورے کا خیر مقدم کرتی ہے۔
ایرانی صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی نے پاکستان آمد پر پُرتپاک استقبال کیے جانے پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان ایران پاکستان دو طرفہ تعلقات کے فروغ اور مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔
ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور مواصلاتی روابط بڑھانے کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی جبکہ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان ایران مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔
ایرانی صدر کے دورہ پاکستان اور وزیر اعظم سے ملاقات کا اعلامیہ جاری
بعدازاں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان اور وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کا اعلامیہ جاری کردیا گیا۔
وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف اور ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کے درمیان وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات ہوئی جس میں دونوں اطراف کے وزرا اور اعلیٰ حکام موجود تھے۔
ایرانی صدر کی کراچی آمد: ریلوے اسٹیشن جانے والوں کیلئے اہم ہدایات جاری
ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات کے دائرہ کار پر تبادلہ خیال کیا اور اہم علاقائی اور عالمی پیشرفت پر بات چیت کی جبکہ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات ، خاص طور پر تجارت، توانائی، روابط، ثقافت اور عوام سے عوام کے رابطوں کے شعبوں میں تعاون کو وسیع پیمانے پر بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
جاری اعلامیے کے مطابق پاکستان اور ایران نے اگلے 5 سالوں میں دوطرفہ تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک مذہب، ثقافت، تہذیب اور ہمسائیگی کے رشتوں میں بندھے ہیں، وقت آ گیا ہے کہ ایران، پاکستان کے تعلقات کو مزید مستحکم کیا جائے، ہماری سرحدوں پر ترقی و خوشحالی کے مینار قائم ہوں اور انہیں کاروبار، خوشحالی اور نظر آتی ترقی میں تبدیل کریں، اقوام متحدہ اور اقوام عالم کو غزہ میں انسانیت سوز مظالم کے خاتمہ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، پاکستان اور ایران نے ہمیشہ کشمیری اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی جدوجہد کی حمایت کی ہے۔
اس کے علاوہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریب میں پاکستان اور ایران کے درمیان 8 شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان جوائنٹ اکنامک فری زون پر توثیق جبکہ سویلین معاملات میں عدالتی امور پر ایم او یو پر دستخط ہوئے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان سکیورٹی تعاون کے سمجھوتے، ویٹرنری اور حیوانات کی صحت سے متعلق معاہدے پر دستخط ہوئے۔
ایرانی صدر کی پاکستان آمد پر کل کراچی اور لاہور میں عام تعطیل، امتحانات ملتوی
وزیراعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر نے مفاہمت کی یاد داشتوں پر دستخط کی تقریب میں شرکت کی اور پاک ایران کے درمیان دوطرفہ، علاقائی وعالمی سطح پر انسانی حقوق بارے تعاون پر مبنی تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم اور صدر ابراہیم رئیسی کی مشترکہ کانفرنس
اسلام آباد میں مختلف شعبوں میں تعاون کی مفاہمت کی یادداشت کی تقریب کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اور صدر ابراہیم رئیسی نے مشترکہ کانفرنس بھی کی۔
شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایران کے صدر اور ان کے وفد کو پاکستان آمد پر خوش آمدید، چشم ما روشن دل ما شاد، آج ہماری بہترین گفتگو ہوئی، ہمارے درمیان مذہب، تہذیب، سرمایہ کاری اور سکیورٹی کے رشتے ہیں، تمام شعبوں میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔
شہباز شریف کا کہنا تھا ایران اور پاکستان کے تعلقات صرف 76 سال سے نہیں ہیں، پاکستان کو سب سے پہلے ایران نے تسلیم کیا۔
وزیراعظم پاکستان کا مزید کہنا تھا غزہ پر سلامتی کونسل کی قرار داد کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں لیکن اقوام عالم خاموش ہے جبکہ کشمیر کے لیے آواز اٹھانے پر ایرانی صدر شکر گزار ہوں۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے معاملے پر ایران نے مضبوط موقف اپنایا جو کہ قابل تعریف ہے، 35ہزار مسلمان شہید کردیے گئے اور عالم اقوام و عالم اسلام خاموش ہے، ہمیں مل کر ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنی ہوگی، پاکستان فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ اسی طرح کشمیر کی زمین بھی بھارتی کی جانب سے ان کے لہو سے سرخ کردی گئی ہے پاکستان کشمیر میں بھی ظلم کو بند کرنے کا مطالبہ کرتا ہے، ایران نے کشمیر کے حق میں آواز بلند کی۔
شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے صدر فقہ اور قانون پر مہارت رکھتے ہیں، ہمیں اپنی سرحدوں پر کاروبار کو وسعت دینی ہوگی، ہمیں موقع ملاہے کہ اپنی دوستی کو مزید مضبوط کریں، ایران کے آزادی کے بعد سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔
ایرانی صدر
ایرانی صدر نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان موجودہ تعلقات کے فروغ کے لیے بڑے مواقع موجود ہیں، آج کی ملاقات میں سیاسی، سفارتی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات کو ہر ممکن حد تک بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔
ابراہیم رئیسی کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیںِ، اس جنگ میں دونوں ملکوں کے درمیان تعاون ضروری ہے، منظم جرائم، منشیات کے خلاف مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، یہ دونوں ممالک کے لیے خطرہ ہیں، پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ، علاقائی و عالمی سطح پر انسانی حقوق کے حوالے سے تعاون پر مبنی تعلقات ہیں، دونوں ملک اپنے دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
ایران کے صدر نے مزید کہا کہ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعاون کا حجم بہت کم ہے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پہلے مرحلہ میں تجارتی حجم کو 10 ارب ڈالر تک بڑھائیں گے، ایران اور پاکستان کی سرحدیں مشترک اور دونوں ملک مشترکہ مذہب سے جڑے ہیں، ہم نے کچھ بارڈر مارکیٹس قائم کی ہیں، کچھ اقدامات اٹھائے ہیں تاہم یہ اقدامات ناکافی ہیں، مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
Comments are closed on this story.