Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
03 Jumada Al-Awwal 1446  

جسٹس عامر فاروق: سائفر کیس میں لگی دونوں دفعات کے تحت ایک ساتھ سزا غلط قرار

فائیوون سی یا فائیو ون ڈی میں سے ایک میں ہی سزا ہوسکتی ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اہم ریمارکس
شائع 04 اپريل 2024 02:04pm

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ فائیو ون سی یا فائیو ون ڈی میں سے ایک میں ہی سزا ہوسکتی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ایف آئی اے اسپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ بھی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جب کوئی وکیل ہاتھی نکال دے تو دم نکالنے کی ضرورت نہیں ہوتی، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ لیکن آپ پر یہ سیکشنز لگی ہوئیں ہیں آپ نے عدالت کی معاونت کرنی ہے۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ رمضان میں جب آپ کام کرتے ہیں توعید سے پہلے عیدی ملنے کا تقاضا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ حامد علی شاہ دلائل کے لیے جتنا وقت چاہیں ہم دیں گے، عید ہونے نہ ہونے کا اس میں کوئی معاملہ نہیں ہم نے قانونی تقاضے پورے کرنے ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ فائیو ون سی یا فائیو ون ڈی میں سے ایک میں ہی سزا ہوسکتی ہے، جس پر سلمان صفدر نے کہا کہ ون سی تو لاپرواہی ہے اور ون ڈی جان بوجھ کرگم کرنا ہے ، میں دونوں کے حوالے سے عدالت کی معاونت کروں گا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ون سی اور ون ڈی دونوں میں سزا ہوئی ہے؟ جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جی بالکل دونوں میں سزا ہوئی ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ون سی اور ون ڈی دونوں میں تو سزا نہیں ہو سکتی، جس پر وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ ون سی اور ون ڈی سے متعلق اعظم خان کےعلاؤہ کوئی ثبوت ان کے پاس نہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ اگر یہ الزام درست فرض بھی کرلیا جائے تو 2 سال بھی سزا زیادہ ہے، قانون میں اس الزام پر 2 سال سزا کا مطلب زیادہ سے زیادہ 2 سال سزا ہے،

جسٹس عامر فاروق نے مزید ریمارکس دیے کہ سائفر ڈی کوڈ ہوا، آٹھ کاپیاں تیار ہوکر مختلف لوگوں کو گئیں، وزیراعظم کا سیکرٹری کہتا ہے کہ میں نے وہ بانی پی ٹی آئی کو دے دی تھی، سیکرٹری کہتا ہے کہ بعد میں جب وہ کاپی دوبارہ مانگی توگم ہوچکی تھی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سیکرٹری جب وزیراعظم کو چیزیں شیئر کرتا ہے تو کیا وہ informal ہوتا ہے؟ جس پر بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ جب سائفر کی کاپی عمومی طور پر ایک سال کے بعد آتی ہے، بانی پی ٹی آئی کو قبل از وقت ہی نوٹس کیوں کر دیا گیا حالانکہ باقی کاپیز 17 ماہ بعد واپس آئیں ہیں، آپ نے ایک سال کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی کریمنل کیس بنا دیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ایک سال میں سائفر کاپی واپس کرنا، آپ کونسی دستاویز کا سہارا لے رہے ہیں، جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ شاہ محمود قریشی نے اس حوالے سے عدالت کے سامنے بات کی تھی۔

عدالت نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق ایک آدھ گواہ نے یہ کہا ہے عمومی پریکٹس یہ ہے کہ کاپی ایک سال تک واپس ہوتی ہے، ایسی کوئی دستاویزریکارڈ پرنہیں ہے جس سے پتہ چلے کہ کاپی ایک سال میں واپس کرنی ہوتی ہے۔

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کی مزید سماعت 16 اپریل تک ملتوی کردی۔

Shah Mehmood Qureshi

imran khan

Justice Amir Farooq

Islamabad High Court

Cypher

justice miangul hassan aurangzeb

Cypher Investigations

cypher case Imran Khan

Cypher case