Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

پاکستان میں میڈیا اورصحافیوں کے ساتھ کیا ہوا اس پر تو کتابیں لکھی جا سکتی ہیں،چیف جسٹس

صحافیوں کو ایف آئی اے نوٹسز، ہراساں کرنے کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس
اپ ڈیٹ 25 مارچ 2024 12:22pm
تصویر: اے ایف پی
تصویر: اے ایف پی

سپریم کورٹ میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے صحافیوں کو جاری نوٹسز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائرعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں میڈیا اورصحافیوں کے ساتھ کیا ہوا، اس پرتو کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔اگرگزشتہ درخواست پر فیصلہ ہو جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، جو لوگ پیچھے ہٹ گئے انکی بھی کمزوری ہے۔ ہم نے 2021 میں ازخود نوٹس لیا تھا۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے آغاز پراٹارنی جنرل منصور عثمان اور وکیل بیرسٹرصلاح الدین روسٹرم پر آئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگرگزشتہ درخواست پر فیصلہ ہو جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، جو لوگ پیچھے ہٹ گئے انکی بھی کمزوری ہے۔ ہم نے 2021 میں ازخود نوٹس لیا تھا، اُس وقت صحافیوں کو ہراساں کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت یہ معاملہ2 رکنی سے 5 رکنی بنچ کے سامنے چلا گیا، کہا گیا صرف چیف جسٹس سوموٹو نوٹس لے سکتے ہیں۔ وہ معاملہ ایف آئی اے نوٹس ملنے سے زیادہ سنگین تھا۔

بیرسٹرصلاح الدین نے کہا کہ، ’ دونوں معاملات کی اپنی اپنی سنگینی ہے۔’

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں کو ایک جیسا سنگین نہیں کہہ سکتے، ایف آئی اے نوٹس مکمل غیر قانونی بھی ہو چیلنج ہو سکتے ہیں۔ الزام تو لگایا جاتا ہے مگر عدالت پیش ہو کر موقف نہیں دیا جاتا۔ اس عدالت کوکسی کواستعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے،ہم بھی جانتے ہیں کہ ایف آٸی آر کیسے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کوٸی سجیدہ جرم تھا یا پھرصرف تنگ کرنے کیلٸے ایف آٸی آرکاٹی گٸی، لوگ ماضی کو جلد بھول جاتے ہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ ایف آئی اے انکوائری درج کرنے کے بعد گرفتاری کا اختیاررکھتی ہے، اس اختیارکو میڈیا اورصحافیوں کی آوازدبانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا ہم کسی ایف آئی آر کو درج ہونے سے روک سکتے ہیں؟ ایف آئی آرغلط ہوسکتی ہے مگراسے کیس ٹو کیس ہی دیکھا جائے گا۔ پاکستان میں میڈیا اورصحافیوں کیساتھ کیا ہوا اس پرتوکتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔

بیرسٹرصلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ پیکا کی ایک سیکشن 20 ہے جس کا باربارغلط استعمال کیاجاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایف آئی اے نے عامر میراورعمران شفقت کیخلاف مقدمات واپس لینے کی یقین دہانی کرائی، ایف آئی اے حکام کے مطابق مقدمات واپس لینے کیلئے درخواستیں دائرکی جائیں گی۔

کیس کی مزید سماعت 27 مارچ تک ملتوی کردی گئی۔

پس منظر:

چیف جسٹس اور ریاستی اداروں کیخلاف غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کی تشہیر پر ایف آئی اے کی جانب سے نوٹس جاری کرتے ہوئے 47 صحافیوں اور یوٹیوبرز کو طلب کیا گیاا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا کہ سوشل میڈیا پرچیف جسٹس اور ریاستی اداروں کیخلاف جھوٹے پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی تشہیر میں ملوث افراد کیخلاف اب تک 115 انکوائریاں رجسٹر کی گئی ہیں اور 65 نوٹسز بھی دیے جا چکے ہیں جن کی سماعت 30 جنوری کو ہو گی۔ نوٹس جاری کیے جانے والے 65 افراد میں 47 صحافی اور یوٹیوبرز بھی شامل ہیں۔

بعدازاں چیف جسٹس نے اعلیٰ عدلیہ کیخلاف مبینہ مہم پر ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں و یوٹیوبرز کو نوٹس بھیج کر مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے کیس کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

Supreme Court

FIA

notices to jounralists