یورپی یونین نے تارکینِ وطن کو نکالنے کی مہم تیز کردی
یورپی یونین میں سکونت اختیار کرنے کی کوشش کرنے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اِن میں بڑی تعداد افریقا سے تعلق رکھنے والوں کی ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین نے اُن کے خلاف مہم بھی تیز کردی ہے۔ٓ
یورپی یونین نے نئے اقدامات کے ذریعے اس سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔ قوانین میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور نئے تارکینِ وطن کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔
یورپی یونین کے اعداد و شمار سے متعلق ادارے یورو اسٹیٹ نے کہا کہ 2023 کے دوران یورپی یونین کے ممالک سے جن لوگوں کو ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے ان میں سب سے زیادہ تعداد مراکش کے باشندوں کی ہے۔
مجموعی طور پر ایک لاکھ 5 ہزار 585 افراد کو ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے۔ مراکشی اِن میں 8 فیصد تھے۔ الجزائری 7 فیصد، ترک اور شامی 6 فیصد جبکہ جارجیائی اور افغانی 5 فیصد تھے۔
ڈیڑھ دہائی کے دوران یورپی یونین پر غیر قانونی تارکینِ وطن کی یلغار تیز تر ہوتی گئی ہے۔ افریقا، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، جنوبی امریکا اور کیریبین کے خطوں سے لاکھوں افراد نے بہتر معاشی امکانات کی تلاش کے لیے یورپ کا رخ کیا ہے۔
یورپی یونین کے حکام نے کم و بیش 29 ہزار تارکینِ وطن کے لیے اُن کے ملک سے ہٹ کر کسی اور ملک میں داخلے اور سکونت کے انتظامات کیے۔
افریقا کے متعدد ممالک سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں داخل ہونے کے لیے غیر قانونی تارکینِ وطن سمندر کی راہ بھی اپناتے ہیں۔ گنجائش سے زیادہ تارکینِ وطن سے لدی ہوئی کشتیاں ڈوبنے کے کئی واقعات ہوچکے ہیں مگر اِس کے باوجود لوگ باز نہیں آرہے۔ ایشیا، وسط ایشیا اور جنوبی امریکا سے بھی غیر قانونی تارکینِ وطن یورپی یونین میں داخل ہونے کی کوششیں اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Comments are closed on this story.