Aaj News

منگل, نومبر 05, 2024  
03 Jumada Al-Awwal 1446  

سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کیلئے مقرر

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نیا 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا
شائع 22 مارچ 2024 04:24pm

سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر کردیں جبکہ 25 مارچ کو سماعت ہوگی۔

فوجی عدالتوں سے متعلق معاملے کی ایک بار پھر سپریم کورٹ میں سماعت ہوگی، عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں 25 مارچ کو سنی جائیں گی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے نیا 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا، جسٹس امین الدین خان 6 رکنی بینچ کی سربراہی کریں گے۔

بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہررضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں، اس کے علاوہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

کیس کا پسِ منظر

13 دسمبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ معطل کردیا تھا، گزشتہ برس 23 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کا 6 صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن ڈی 2 کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ کے سیکشن 59 (4) بھی کالعدم قرار دی جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کے 1-4 کے اکثریتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ فوجی تحویل میں موجود تمام 103 افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہوگا۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کے تمام ملزمان کے ٹرائل متعلقہ فوجداری عدالتوں میں ہوں گے اور سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ہونے والے کسی ٹرائل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔

فیصلہ 1-4 کی اکثریت سے سنایا گیا تھا اور جسٹس یحیٰی آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

اِس فیصلے کے خلاف نگران وفاقی حکومت، وزارت دفاع، وزارت قانون، نگران حکومتِ پنجاب، نگران حکومتِ خیبرپختونخوا، نگران حکومتِ بلوچستان سمیت 17 اپیلیں دائر کی گئی ہیں۔

17 نومبر کو نگران وفاقی حکومت اور وزارت دفاع نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو کالعدم قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

درخواستوں میں آرمی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

انٹراکورٹ اپیلوں میں مؤقف اپنایا گیا کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں اور آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

علاوہ ازیں بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ چیلنج کر دیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ آرمی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

بعدازاں 21 نومبر کو نگران حکومتِ پنجاب نے بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

9 دسمبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سپریم کورٹ میں 13 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کردی گئی تھی۔

واضح رہے کہ حکومت نے 9 مئی کے واقعات کے بعد فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف مقدمات ملٹری کورٹ میں چلانے کا فیصلہ کیا تھا اور متعدد افراد کے مقدمات فوجی عدالت میں بھجوائے جا چکے ہیں۔

اس فیصلے سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں ہونے والی فارمیشن کمانڈرز کانفرنس کے دوران اس عزم کا اظہارکیا گیا تھا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد اوران کے سہولت کاروں اورماسٹرمائنڈز کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔

درخواست گزار کون ہیں؟

فوجی عدالتوں میں سویلین مقدمات کیخلاف درخواستیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، کرامت علی اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے دائر کر رکھی ہیں۔

Supreme Court

اسلام آباد

Justice Qazi Faez Isa

militry courts

Military courts in Pakistan

Military Court

Civilians Trial in Military Courts

Military Trial

Chief Justice Qazi Faez Isa