بلوچستان سے سینیٹ میں جانے والے پیراشوٹرز، جو سیٹ ملتے ہی 6 سال کیلئے غائب ہوجائیں گے
سینیٹ کو ایوان بالا ہونے کا اعزاز اس لئے دیا گیا ہے کہ اس ادارے میں تمام اکائیوں کے برابر نمائندے ہوتے ہیں، لیکن بلوچستان میں بدقسمتی سے ایسے پیرا شوٹرز آکر ایوان کا حصہ بن جاتے ہیں جن کا بلوچستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، اور پھر بلوچستان کو بھول کر اگلے چھ سال کیلئے حکمرانوں کے شہر اسلام آباد جاکر بس جاتے ہیں۔
پہلے یہ پیراشوٹرز آزاد امیدواروں کی شکل میں آتے تھے، لیکن اب سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر بھی آنے لگے ہیں۔
بلوچستان میں سینیٹ کی گیارہ نشستوں میں سے سات جنرل ہیں، ٹیکنوکریٹ کی دو اور خواتین کی دو مخصوص نشستیں ہیں، جنہیں پانے کیلئے 36 امیدواروں نے کمر کس لی ہے۔
ان میں چھ آزاد امیدواروں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کا ایک ایسا مشترکہ امیدوار بھی ہے جس بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں۔
باہر سے آنے والے امیدوار ایمل ولی خان کا دفاع اے این پی کی قیادت یہ کہہ کر کررہی ہے کہ وہ بلوچستان کی آواز ہوں گے۔
اے ان پی رہنما اصغر اچکزئی کا کہنا ہے کہ ایمل ولی خان کو ہم نے قوم کی نمائندگی اور باچا خان کے اس تسلسل کو آگے بڑھانے کیلئے چنا ہے جو اس مٹی کے محکوم و مظلوم عوام کی نمائندگی کریں گے۔
سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ، امان اللہ کندرانی، امجد صدیقی، حسین اسلام سیمت چھ ازاد امیدوار بھی سینیٹر بننے کا عزم رکھتے ہیں۔
آزاد حیثیت سے ایوان بالا کا ممبر بننے والے پیسے کی ریل پیل سے ہی آتے ہیں جسے سب تسلیم کرتے ہیں۔
بلوچستان سے ایوان بالا کا رکن بننے کے حوالے سے مؤثر قانون سازی ہونے تک یہاں پیرا شوٹرز کے اترنے اور منتخب ہو جانے کے بعد منظر سے غائب رہنے کی روایت برقرار رہے گی، جس کا تدارک وقت کا تقاضہ ہے۔
Comments are closed on this story.