کائنات کا پھیلاؤ سمجھنے میں ہم اب تک کامیاب نہیں ہوسکے؟
امریکا کی جدید ترین جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے اس بات کی بہت حد تک تصدیق کردی ہے کہ کائنات کو سمجھنے کے معاملے میں ہماری اب تک کی قابلیت اور کوششیں کافی نہیں۔
مشاہدے اور تجزیے کی بنیاد پر فلکیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہماری کائنات مختلف رفتاروں سے پھیل رہی ہے۔ رفتار کا یہ فرق دراصل اس بنیاد پر ہے کہ ہم کائنات کو کہاں سے اور کیسے دیکھ رہے ہیں۔
جیمز ویب اور ہبل ٹیلی اسکوپ استعمال کرنے والے ماہرین نے اب اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مشاہدے کا معاملہ محض پیمائش کی غلطی تک محدود نہیں۔ ان کے نزدیک طبعیات کے سب سے بڑے معموں میں یہ بھی شامل ہے کہ کائنات مختلف رفتاروں کے ساتھ پھیلتی دکھائی دیتی ہے اور اس کا مدار اس امر پر ہے کہ ہم دیکھ کہاں سے رہے ہیں۔
فلکیات کے ماہرین اس مسئلے کو ہبل ٹینشن کہتے ہیں۔ اس مسئلے کی جہتیں کائنات کو سمجھنے کی ہماری کوششوں کو محض تبدیل نہیں کرسکتیں بلکہ پلٹ بھی سکتی ہیں۔ 2019 میں ہبل ٹیلی اسکوپ نے تصدیق کردی کہ یہ معمہ حقیقی ہے۔ 2023 میں جیمز ویب ٹیلی اسکوپ سے حاصل ہونے والی معلومات سے اس امر کی مذید تصدیق ہوئی کہ ہبل ٹینشن ایک حقیقی مسئلہ ہے۔
اب دونوں دوربینوں کی کارکردگی کو ملاکر دیکھنے سے تیسرے چیک کے ذریعے محسوس ہو رہا ہے کہ پیمائش کی کسی بھی غلطی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ 6 فروری کو ایسٹروفزیکل جرنل لیٹرز میں شائع ہونے والی تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ کائنات کی ہماری تفہیم میں کچھ بہت ہی غلط واقع ہو رہا ہے۔
تحقیق کے مصنف جان ہاپکنز یونیورسٹی میں طبعیات اور فلکیات کے پروفیسر ایڈم ریز کہتے ہیں کہ پیمائش کی غلطیوں سے انکار کے بعد اب یہ طے ہے کہ کائنات کو سمجھنے میں ہم سے شدید غلطی سرزد ہو رہی ہے۔
ایڈم ریز، سوآل پرلمٹر اور براین پی شمٹ نے 1998 میں کائنات کے پھیلاؤ کی پشت پر کارفرما ڈارک انرجی کی دریافت پر 2011 میں طبعیات کا نوبیل انعام حاصل کیا تھا۔
فلکیات کی دنیا میں کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو دی ہبل کونسٹنٹ کہا جاتا ہے۔ اس وقت ہبل کونسٹنٹ کو سمجھنے کے دو طریقے رائج ہیں۔ پہلا طریقہ کائنات کے باریک لہروں کے بیک گراؤنڈ میں رونما ہونے کمی بیشی کا جائزہ لینے پر مشتمل ہے۔ یہ دراصل بگ بینگ کے 3 لاکھ 80 ہزار سال بعد پیدا ہونے والی پہلی روشنی پر قائم ہے۔
ماہرین نے 2009 سے 2013 کے دوران یورپی خلائی ادارے کے مصنوعی سیارے پلینک کے ذریعے بتایا تھا کہ ہبل کونسٹنٹ تقریباً 46 ہزار 200 میل فی گھنٹہ فی 10 لاکھ نوری سال یا 67 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پرسیکنڈ ہے۔
دوسرا طریقہ دھڑکتے ستاروں کو استعمال کرنے کا ہے۔ اس طریقے کو سیفائیڈ ویریئیبل کہا جاتا ہے۔ سیفائیڈ ستارے مر رہے ہیں اور ان کی ہیلیم گیس کی بیرونی پرتیں ستارے کی روشنی کو جذب کرنے اور ریلیز کرنے کی بنیاد پر پھیلتی اور سکڑتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ کبھی کبھی تیزی سے بھڑک اٹھتے ہیں جیسے سگنل لیمپ ہوں۔
جب سیفائیڈ ستارے روشن تر ہو جاتے ہیں تب وہ قدرے کم رفتار سے جھلملاتے ہیں۔ اس سے ماہرینِ فلکیات کو ان کی چمک کی درست پیمائش کا موقع ملتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر فاصلوں کا تعین بھی ہوتا ہے۔ یوں ماہرینِ فلکیات خلا کی مزید گہرائیوں میں جھانکنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔
ایڈم ریز اور ان کے ساتھی کائنات کے پھیلنے کی رفتار کے حوالے سے مخمصے میں مبتلا ہیں کیونکہ ان کے اندازے سے یہ رفتار 74 کلومیٹر میگا پر سیکنڈ ہے جو ناممکن ہے۔ اب کائنات کا علم ایک نئے میدان میں داخؒل ہو رہا ہے۔
نوبیل انعام یافتہ ماہرِ فلکیات ڈیوڈ گراس نے 2019 میں کیولی انسٹیٹیوٹ فار تھوریٹیکل فزکس (کیلیفورنیا) میں ایک کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ہم اسے ٹینشن یا پرابلم نہیں کہیں گے۔ یہ تو نِرا بحران ہے۔
ابتدا میں ماہرین کا خیال تھا کہ پیمائش میں غلطی سے مختلف نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جدید ترین طریقوں سے مدد لی تب بھی نتائج مختلف برآمد ہوئے ہیں۔ اب وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات کو سمجھنے کے لیے مائنڈ سیٹ بدلنا ہوگا۔
اس مسئلے کو کسی حد تک حل کرنے کے لیے ایڈم ریز اور ان کے ساتھیوں نے 130 نوری سال کے فاصلے پر واقع پانچ کہکشاؤں میں کم و بیش ایک ہزار دم توڑتے ہوئے ستاروں کا مشاہدہ کیا۔ ہبل کی پیمائش سے موازنہ کرنے پر اُنہیں غلطی کا علم ہوا۔
کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار ناپنے اور سمجھنے کے لیے اب مزید تحقیق کی ضرورت پڑے گی۔ ایڈم ریز کا کہنا ہے کہ کائنات کی سیڑھی پر اور اوپر جاتے ہوئے انہیں ہبل ٹیلی اسکوپ پر زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔ سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ کائنات کے قلب میں واقع ’ٹینشن‘ ہر حال میں رہے گی۔
Comments are closed on this story.