پاکستان میں پہلی بار مردہ شخص کے اعضاء سے 7 لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں
پاکستان میں پہلے ’اسپلٹ لیور ٹرانسپلانٹ‘ کے کامیاب آپریشن کے ذریعے 7 مریضوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں، ٹرانسپلانٹ لاہور کے کڈنی اور لیور انسٹیٹیوٹ میں کیا گیا تھا۔
بدھ کے روز سی ای او پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کی جانب سے کہنا تھا کہ راولپنڈی کا رہائشی دماغی طور پر مردہ ہو گیا تھا، جس کے اعضاء سے سات لوگوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔
32 سالہ عزیر بن یاسین کا عطیہ کردہ جگر دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک بچے اور جوان شخص میں ٹرانسپلانٹ کیا گیا ہے۔
راولپنڈی میں انتقال کرنے والے شخص کے اعضاء بشمول جگر، لبلبہ، گردے اور آنکھیں اتوار کی رات نکالی گئیں۔
ڈاکٹر سعود کے مطابق جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، جس میں سے آدھا حصہ جوان شخص کو اور دوسرا ایک کم عمر بچے کو لگایا گیا ہے، جسے جگر فیلئیر کی شکایت تھی۔
جبکہ ڈونر عزیر بن یاسین کی خواہش تھی کہ اس کے تمام آرگنز کو اس کی موت کے بعد عطیہ کر دیا جائے، جو کہ بعدازاں راولپنڈی اور لاہور میں مجموعی طور پر 7 افراد کے لیے فائدہ مند ہوئے۔
جبکہ ڈونر کی آنکھیں شفاء آئی ٹرسٹ اسپتال کو عطیہ کی گئی تھیں، جہاں 2 مریضوں کو آنکھیں عطیہ کی گئیں، دوسری جانب دونوں کڈنیز راولپنڈی میں 2 مختلف مریضوں کو لگائی گئیں۔
تاہم ڈونر کا جگر اور پِتہ ڈاکٹر فیصل سعود نے خود وصول کیا، جسے بعدازاں اسی رات لاہور منتقل کیا گیا، جہاں جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مریضوں کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔
##اسپلٹ لیور ٹرانسپلانٹ کیا ہے؟
ڈاکٹر فیصل سعود کا کہنا تھا کہ ’اسپلٹ لیور ٹرانسپلانٹ‘ دراصل ایک ہی مریض کا جگر ہوتا ہے، جو کہ دائیں اور بائیں پورشن میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
عام طور پر ایک جوان مریض میں جگر کا 60 فیصد والا حصہ امپلانٹ کیا جاتا ہے جو کہ دایاں حصہ ہوتا ہے، جبکہ کم عمر مریضوں میں بایاں حصہ جو کہ 40 فیصد ہوتا ہے، امپلانٹ کیا جاتا ہے۔
واضح رہے ڈاکٹر فیصل سعود ڈار کو جگر کے ٹرانسپلانٹ کا ماہر سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اب تک 2000 سے زائد لیور ٹرانسپلانٹ کیے ہیں۔
Comments are closed on this story.