سپریم کورٹ نے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل تسلیم نہیں کیا، پانچ صفحات جاری
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھٹو ریفرنس پر اپنے مختصر رائے تحریری شکل میں پانچ صفحات میں جاری کردی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ آئین اور قانون میں اس بات کی گنجائش نہیں کہ بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
سپریم کورٹ نے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل بھی تسلیم نہیں کیا تاہم یہ کہا ہے کہ تفصیلی رائے میں آئینی اور قانونی جھول کے بارے میں بتایا جائے گا۔
بھٹو ریفرنس کی سماعت کے محفوظ کی گئی رائے بدھ کے روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پڑھ کر سنائی جس کے بعد تحریری رائے سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پر جاری کی گئی۔
عدالت نے صدارتی ریفرنس میں بھیجے گئے پانچ سوالات سامنے رکھے ہیں اور ان پر مختصر رائے دی ہے۔ دو سوالات پر براہ راست جواب نہیں دیا گیا۔
سپریم کورٹ تفصیلی رائے بعد میں جاری کرے گی۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 186 کے تحت اپنے مشاورتی دائرہ کار کو استعمال کرتے ہوئے صدارتی ریفرنس پر رائے دی ہے۔
تحریری رائے کے پانچ صفحات کے مطابق عدالت عظمیٰ کے سامنے پہلا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کی پھانسی سے متعلق لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے آئین مین دیئے گئے بنیادی حقوق کے تقاضوں پر پورا اترتے تھے اور اگر ایسا نہیں تھا تو اس کا اثر اور نتائج کیا تھے۔
عدالت عظمیٰ نے کہاکہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی کارروائی منصفانہ ٹرائل اور انصاف کے لیے درکار ضروری تقاضوں کے مطابق نہیں تھی۔ تاہم عدالت نے اپنی رائے میں یہ بھی لکھا کہ آئین اور قانون میں ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں جس سے مسٹر بھٹو کو مجرم قرار دینے اور سزا دینے والے فیصلے کو ختم کیا جائے، سپریم کورٹ کی جانب سے نظرثانی کا عمل مکمل ہونے کے بعد یہ فیصلہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے۔
سپریم کورٹ کے سامنے دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے جو قانونی اصول وضع کیا گیا وہ تمام عدالتوں پر لازم ہے۔ عدالت نے اپنی رائے میں کہا کہ سوال میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اس فیصلے سے کونسا قانونی اصول وضع کیا گیا تھا لہذا اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔
عدالت نے سوال نمبر تین اور پانچ کو ایک ساتھ سامنے رکھا۔ ان سوالات میں کہا گیا تھا کہ کیا بھٹو کی سزائے موت درست تھی یا اسے دانستہ قتل کے مترادف قرار دیا جا سکتا ہے اور کیا شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھٹو کو سزا دی جاسکتی تھی۔
یہ سوالات پیپلز پارٹی کے اس موقف کے حوالے سے ہے جس میں وہ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتی رہی ہے۔
تاہم عدالت عظمیٰ نے اپنی رائے میں کہا کہ وہ آرٹیکل 186 کے تحت اپنے مشاورتی دائرہ کار میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتی اور فیصلہ الٹ نہیں سکتی۔ تاہم تفصیلی فیصلے میں اہم آئینی اور قانونی جھول کی شناخت کی جائے گی۔
صدارتی ریفرنس میں چوتھا سوال یہ تھا کہ کیا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ شرعی قوانین کے مطابق ہے۔ عدالت نے اس سوال کا جواب بھی نہیں دیا اور کہا کہ اس سوال پر عدالت کو معاونت نہیں ملی لہذا اس پر رائے دینا مناسب نہیں ہوگا۔
Comments are closed on this story.