بھٹو صدارتی ریفرنس: ’عدالت اس کیس کو صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے، سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دباؤ ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس کو صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔
جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر لارجر بینچ میں شامل ہیں، اس کے علاوہ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی 9 رکنی لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔
کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔
دوران سماعت عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا، سپریم کورٹ اس حد تک قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے، جس پر خالد جاوید خان کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے، جس پر عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ پوری ریاستی مشینری آمر ضیاء الحق کے کنٹرول میں تھی۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ ذوالفقار بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے، اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تو کس طریقے سے اب دوبارہ جائزہ لیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے، ججز کی آزادی اور ان پر ریاستی دباؤ ہو تو اس بات کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بھٹو کیس میں ٹرائل کی شفافیت دیکھی جاسکتی ہے مگر طریقہ کار کا بتایا جائے، صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فوجداری کیس کا ٹرائل کیسے دوبارہ کھولے۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ مارشل لاء دور میں ججز آزاد نہیں تھے، لاہور ہائیکورٹ کے جج آفتاب احمد نے کہا تھا ذوالفقار بھٹو اچھے مسلمان نہیں، ہائیکورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے کے بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، اچھا مسلمان نہ ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔
چیف جسٹس پاکستان نے عدالتی معاون سے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائیکورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی؟ جس پر خالد جاوید خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے جس میں جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 صفحات پر مشتمل ہے، کیا کبھی ایسا طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالتی ریکارڈ سے ایسا مواد دکھائیں جس سے ثابت ہو ججز پردباؤ تھا یا تعصب پر فیصلہ کیا گیا، ایسے تو پھر کہا جائے گا ہر کیس دوبارہ کھولا جائے۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو ذوالفقار بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی، بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس بینچ نے کیس سنا اس میں ایڈہاک ججز بھی تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کیس 9 رکنی بینچ نے سنا بعد میں 7 رہ گئے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ حال ہی میں انتخابات کیس 9 رکنی بینچ نے شروع کیا پھر 6 رہ گئے تھے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ نسیم حسن شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے سن سکتے تھے۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان نے کہا کہ آج ہم مختلف دور میں رہ رہے ہیں، اس وقت ہزاروں لوگ جیلوں میں ڈالے گئے، لوگوں کو پھانسیاں دی گئیں، اس وقت ملک میں بدترین مارشل لاء تھا، اس وقت ملٹری کورٹس کے ذریعے لوگوں کو سزائیں دی جاتی رہیں، صحافیوں کو کوڑے مارے گئے، میرے والدین کو بھی فوجی عدالت سے سزائیں دی گئیں، اس وقت ساز باز کرکے چیف جسٹس پاکستان بنے، جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اس وقت کے حالات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم ایک مختلف اختیار سماعت کے تحت کیس کو سن رہے ہیں، جس پر خالد جاوید خان نے کہا کہ ایگزیکٹو کا عدلیہ پر شدید دباؤ تھا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کسی عدالتی فیصلے کو کالعدم قرار دیے بغیر کیسے تعصب کا جائزہ لے سکتے ہیں، کیا ہم ٹرائل کورٹ، سپریم کورٹ اور نظرثانی کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے دیں، ہم ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیئے بغیر کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
عدالتی معاون خالد جاوید نے کہا کہ ملزم کو نوٹس دیے بغیر ہائیکورٹ کو بھٹو کیس منتقل کر دیا گیا، میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں۔
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتی ہے، ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے۔
عدالتی معاون نے کہا کہ جسٹس اطہرمن اللہ کے تحریرکردہ ایک فیصلے میں کہا گیا بھٹو کوپھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو پھر ڈیکلریشن آگیا۔
عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کردیا۔
بیرسٹر صلاح الدین نے عدالت کو بتایا کہ عدالت پہلے فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے، سوال یہ ہے کہ عدالت کیا آرٹیکل3 /186 کے دائرہ اختیار میں یہ کر سکتی ہے؟
بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے 2 جی ریفرنس میں رائے دی، بھارتی سپریم کورٹ نے کہا کہ فیصلے نہیں مگر پرنسپل آف لا کی دوبارہ تعریف ہو سکتی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ان سے دریافت کیا کہ آپ بھارتی فیصلوں پر اتنا انحصار کیوں کر رہے ہیں؟ بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ میں پاکستانی فیصلوں کی طرف بھی آتا ہوں، 2013 میں ججوں کی تعیناتی کیس میں سپریم کورٹ پاکستان کا فیصلہ موجود ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آپ کی نظر میں بھٹو کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین نے بتایا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ایک جج کے انکشافات کے بعد فیصلہ تعصب زدہ ہے یا نہیں؟
قاضی فائز عیسی نے عدالتی معاون سے دریافت کیا کہ آپ تعصب والے معاملے پر ایک پہلو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں؟ ہو سکتا ہے سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل یہ پراسیکیوٹر بن کر ہم پر آرٹیکل 6 نہ لگا دے، یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ یقینا کچھ چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں، مشکل مگر یہ ہے کہ اس دور کے کون سے فیصلے برقرار رکھے جائیں اور کون سے ختم کیے جائیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی مشکل میں حل کر دیتا ہوں کہ ہمارے سامنے ایک ہی ریفرنس ہے جس پر بیرسٹر صلاح الدین نے کا کہنا تھا کہ تشویش یہ ہے اس کے بعد اس دور کے مزید کیسز کھولنے کا راستہ نکلے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کاکہنا یہ ہے کہ جج آزاد نہیں تھا اس لیے انصاف کا خون ہوا۔
عدالتی معاون نے جواب دیا کہ جی ، میرا یہی مؤقف ہے۔
بعد ازاں بھٹو ریفرنس میں بیرسٹر صلاح الدین نے جسٹس نسیم کی کتاب سے اہم حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ بھٹو کے خلاف فیصلہ دینے کے بعد چیف جسٹس ہائی کورٹ مشتاق اٹارنی جنرل پیرزادہ کو لے کر جسٹس نسیم حسن شاہ سے ملنے آئے اور کہا کہ فیصلے کے خلاف اپیل والے بینچ میں آپ بیٹھیں، لہذا صرف اسی پوائنٹ پر سزائے موت کالعدم ہونی چاہیے تھی۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ جب کتاب شائع ہوئی کیا جسٹس مشتاق زندہ تھے؟
عدالتی معاون نے بتایا کہ شریف الدین پیرزادہ تو زندہ ہی تھے ، اس ملاقات کے بعد نسیم حسن شاہ پر لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا تعصب منکشف ہو چکا تھا مگر اس کے باوجود ان ک کے خلاف تعصب کی درخواست خارج کر دی گئی۔
بیرسٹر صلاح الدین نے مزید کہا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا کہ ہم سے تو کسی نے نہیں کہا یوں کرو، ساتھ ہی کہا، ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس سے بات کرتے ہوں، پھر کہا، ہو سکتا ہے وہ ہم سے بھی ان ڈائریکٹ کہتے ہوں، یوں کر لیں تو بہتر ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے عدالتی معاون ست پوچھا کہ یہ ان ڈائریکٹ کہنا کیا ہوتا ہے؟
عدالتی معاون نے جواب دیا کہ میں تو ان کی باتیں ہی پوائنٹ آؤٹ کر رہا ہوں۔
بیرسٹر صلاح الدین نے نسیم حسن شاہ کے افتخار احمد کو دیےگئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انٹرویو میں مانا کہ چیف جسٹس کو بھٹو سے دشمنی ہو گئی تھی، نسیم حسن شاہ نے کہا سزا کم ہو سکتی تھی مگر بھٹو کے وکیل نے ناراض کر دیا تھا تو کیا سزائے موت کے کیس میں جج کو وکیل کے طرز عمل پر سزا سنانی چاہیے؟
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ وکیل کے کنڈکٹ کی سزا کلائنٹ کو نہیں دی جا سکتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ کل ہم اس معاملے کے کریمنل پہلو کو سنیں گے۔
اس دوران اعتزاز احسن بھی بطور معاون عدالت میں پیش ہوگئے، ان کے آنے پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آپ پہلے کیوں نہیں آ رہے تھے؟
جسٹس یحیی آفریدی نے کہ کہ آپ کی جانب سے کسی نے بیان دیا تھا کہ آپ پیش نہیں ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی کو اعتراض نہیں تو اعتزاز احسن کو سن لیں گے، کل عدالتی معاون منظور ملک کو سنیں گے۔
اس پر فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں کہا کہ کریمنل پہلو سے پہلے بلاول بھٹو کی طرف سے مجھے سنا جائے، میں نے بلاول کی جانب سے فریق بننے کی درخواست کی تھی، میرا صدر مملکت سے تعلق نہیں ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت کل بروز منگل تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے حکمنامہ لکھوایا، حکم نامے کے مطابق عدالتی معاونین خالد جاوید اور صلاح الدین نے دلائل مکمل کر لیے ہیں، ریفرنس پر مزید سماعت کل صبح 11:30 بجے ہو گی۔
واضح رہے کہ 20 فروری کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی ہے، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں؟
انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہے؟
عدالتی معاون نے دلیل دی کہ ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا، اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا کہ کوئی تعصب کا شکار ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسرا یہ رائے نہ رکھے۔
مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تعصب کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید دریافت کیا کہ کیا ہم اس پہلو کو نظرانداز کر سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا اپنا مفاد تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریفرنس پر سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی تھی۔
Comments are closed on this story.