سپریم کورٹ نے توہین قرآن کیس میں دیے گئے فیصلے پر وضاحت جاری کردی
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک فیصلے سے متعلق سوشل میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کے حوالے سے اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈ یا پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی وجہ سے کئی غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اور ایسا تاثر دیا جارہا ہے جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم ”مسلمان“ کی تعریف سے انحراف کیا ہے اور “مذہب کے خلاف جرائم “ کے متعلق مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعات ختم کرنے کے لیے کہا ہے، یہ تاثر بالکل غلط ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے توہین قرآن اور قادیانیت کی ترویج کے مقدمے سے توہین قرآن اور قادیانیت کی ترویج کی دفعات حذف کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے شخص کو ضمانت دینے کے معاملے پر ملک کی مختلف مذہبی سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اور فیصلہ سنانے والے ججز پر احمدیوں کی حمایت کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔
پنجاب حکومت نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریوو پیٹیشن دائرکرنے کا فیصلہ کیا ہے، ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ جس کی منظوری دے دی گئی ہے۔
جس کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے سے متعلق وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ مقدمہ بعنوان مبارک احمد ثانی بنام ریاست ( فوجداری درخواست نمبر 2023/L-1054 اور 2023/L-1344) میں سپریم کورٹ نے یہ قرار دیا تھا کہ اس مقدمے کی ایف آئی آر میں مذکور الزامات کو جوں کا توں درست تسلیم بھی کیا جائے، تو ان پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو تا، بلکہ فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932ء کی دفعہ 5 کا اطلاق ہو تا ہے، جس کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی قید کی سزادی جاسکتی ہے۔چونکہ درخواست گزار / ملزم پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزار چکا تھا، اس لیے اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئےسپریم کورٹ نے درخواست گزار / ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ افسوس کی بات یہ ہے ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں اور اسلامی احکام بھلادیے جاتے ہیں۔ فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اسی سیاق و سباق میں دی گئی ہیں ۔ فیصلے میں غیر مسلموں کی مذہبی آزادی کے متعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی جو دفعات نقل کی گئی ہیں ان میں واضح طور پر یہ موجود ہے کہ یہ حقوق ”قانون، امن عامہ اور اخلاق کے تابع“ ہی دستیاب ہوں گے۔ اسلامی احکام، آئینی دفعات اور قانون و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا گیا۔
ترجمان کے مطابق اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ اس موضوع پر پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے ( ظہیر الدین بنام ریاست ، 1993 ایس سی ایم آر 1718) جس سے موجودہ فیصلے میں کوئی انحراف نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اپنے فیصلوں میں قرآن مجید کی آیات ، خاتم النبیین ﷺ کی احادیث ، خلفائے راشدین کے فیصلوں اور فقہائے کرام کی آراء سے استدلال کرتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ تمام قوانین کی ایسی تعبیر اختیار کی جائے جو احکام اسلام کے مطابق ہو، جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کی دفعہ 2، دفعہ 31 اور دفعہ 227 اور قانون نفاذ شریعت، 1991ء کی دفعہ 4 کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلامی اصول یاک سی آئینی یا قانونی شق کی تعبیر میں عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہوئی ہے، تو اس کی تصحیح و اصلاح اہل علم کی ذمہ داری ہے اور اس کے لیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں۔ چیف جسٹس اور سپر یم کورٹ نے کسی کو نظر ثانی(review) سے نہ پہلے روکا ہے نہ ہی اب روکیں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جاسکتی ہے، لیکن نظر ثانی کا آئینی راستہ اختیار کیے بغیر تنقید کے نام پر یا اس کی آڑ میں عدلیہ یا ججوں کے خلاف منظم مہم افسوسناک ہے اور آئین کی دفعہ 19 میں مذکور اظہار رائے کی آزادی کے حق کی حدود کی خلاف ورزی بھی ہے اور اس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس ستون کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس پر آئین نے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری ڈالی ہے۔
گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی، پولیس
اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو غلط انداز میں پیش کیا جارہا ہے، گمراہ کن خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
اسلام آباد پولیس کا کہن اہے کہ کسی بھی عمل پر جرم کا اطلاق رائج الوقت قانون کے مطابق ہوسکتا ہے، کچھ عناصر افواہوں کی آڑ میں امن عامہ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اسلام آباد کیپیٹل پولیس ایسے عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کرے گی۔
پولیس کے مطابق اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے، خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے گی، شہریوں سے گذارش ہے کہ کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ نہ بنیں، غیر قانونی عوامل پر اکسانے پر کارروائی ہوگی، کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کی اطلاع 15 یا آئی سی ٹی 15 ایپ پر دیں۔
معاملہ کیا ہے؟
چھ دسمبر 2022 کو پنجاب کے شہر چنیوٹ کے تھانہ چناب نگر میں احمدیہ جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون سمیت پانچ افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا تھا جس کے مدعی تحفظ ختم نبوت فورم نامی تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد حسن معاویہ تھے۔
ایف آئی آر میں مدعی کے مطابق سات مارچ 2019 کو مدرستہ الحفظ عائشہ اکیڈمی کی سالانہ تقریب کے دوران مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر ’تفسیرِ صغیر‘ 30 بچوں اور 32 بچیوں میں تقسیم کی گئیں۔
مدعی کے مطابق ممنوعہ تفسیر کی تقسیم کا یہ عمل آئین کے آرٹیکل 295 بی، 295 سی اور قرآن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے جب کہ مدعی نے اپیل کی تھی کہ ’تقریب کا اہتمام کرنے والے اور تحریف شدہ قرآن تقسیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
واضح رہے کہ ’تفسیرِ صغیر‘ احمدی کمیونٹی کی جانب سے مرتب کردہ قرآنی تفسیر ہے جس کی تقسیم کے خلاف دسمبر 2022 میں درج ہونے والے مقدمے کے بعد پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی شخص کو سات جنوری 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم مقدمے میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
مبارک احمد کی گرفتاری کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اور بعدازاں لاہور ہائیکورٹ نے ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی تھی۔
معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے حال ہی میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مبارک احمد ثانی نامی ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا جن کا تعلق احمدی کمیونٹی سے ہے۔
اگرچہ سپریم کورٹ نے مبارک احمد کی ضمانت پر رہائی کا فیصلہ چھ فروری 2024 کو سنایا تھا۔ مگر دو روز قبل سوشل میڈیا پر بعض اکاؤنٹس کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی تشہیر کی گئی جس کے بعد مذہبی جماعتیں اس معاملے پر ہم آواز ہوگئیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سمیت تحریک لبیک کے سربراہ علامہ سعد رضوی، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار پاکستان، جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ہشام الہیٰ ظہیر، نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ اور تحریکِ تحفظ ناموس رسالت پاکستان کی طرف سے مذمتی بیانات سامنے آچکے ہیں۔
مذکورہ مذہبی تنظیمیں چیف جسٹس سے فیصلے پر نظر ثانی کرنے اور فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے حوالے سے بات کرنا ہمیشہ سے حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس بارے میں ماضی میں کئی افراد کو صرف الزام لگنے پر ہی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔
Comments are closed on this story.