کتنے حلقوں میں دھاندلی ہوئی؟ پی ٹی آئی کے دعوؤں پر سوالیہ نشان برقرار
انتخابی نتائج کی شفافیت پر سوالیہ نشان اب تک لگا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی نے ابتدا میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ 150 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت ہے۔ اس کے بعد پارٹی کے مرکزی رہنما بیرسٹر گوہر علی خان نے 180 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا۔
اب بھی یہ امر واضح نہیں کہ قومی اسمبلی کے کن حلقوں کے بارے میں پی ٹی آئی کا دھاندلی کا دعویٰ ہے۔ 87 پر یا 55 پر؟
پی ٹی آئی اب تک ایسے 87 حلقوں کی فہرست پیش نہیں کرسکی جن کے بارے میں اس کا دھاندلی کا دعویٰ ہے۔
بی بی سی نے ایک تجزیے میں بتایا کہ مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر دعووں کے باوجود پی ٹی آئی اب تک اپنے حق میں دلائل پیش کرسکی ہے نہ ثبوت۔
جمعہ کو ایک پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی نے 45 حلقوں کے اعداد و شمار پیش کیے جن کے بارے میں اس نے دھاندلی کا دعویٰ کیا ہے۔ اب بھی ایسے حلقوں کی تعداد 55 سے زیادہ نہیں۔
یہ بھی واضح نہیں کہ پی ٹی آئی دھاندلی کے دعووں پر قانونی اعتبار سے کیا کرے گی۔
پی ٹی آئی نے فارم 45 کا نتیجہ فارم 47 میں تبدیل کرنے کا بھی دعویٰ کیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ 40 حلقوں میں پولنگ ایجنٹس کو فارم 45 جاری ہی نہیں کیے گئے۔
دھاندلی کے اعداد و شمار جمع کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے میڈیا ونگ نے فارم 45 کے نام سے ویب سائٹ بھی بنالی ہے۔ 87 حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کیا گیا ہے تاہم صرف 27 نشستوں کے فارم 45 اپ لوڈ کیے گئے ہیں۔ ویب سائٹ پر ایک نوٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ متعدد امیدوار روپوش ہیں اور عوام سے اپنے فارم شیئر کرنے سے قاصرہیں۔
ی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس سے خیبر پختونخوا میں پانچ، اسلام آباد میں تین، پنجاب میں 60، سندھ میں 16 جبکہ بلوچستان میں تین نشستیں ’چھینی‘ گئی ہیں۔
بار بار استفسار پر بھی پی ٹی آئی کے رہنما یا ترجمان ’گم شدہ‘ حلقوں کے بارے میں جامع اور مستند اعداد و شمار فراہم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے تاحال فراہم کردہ اور بی بی سی کی جانب سے جمع کردہ تفصیلات کے مطابق جن حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کیا جارہا ہے ان میں سے 29 پنجاب، 19 سندھ (جن میں سے 18 کا تعلق کراچی سے ہے) تین اسلام آباد، میں تین بلوچستان میں جبکہ ایک خیبر پختوخوا میں واقع ہے۔
پنجاب کے جن حلقوں کی نشاندہی تحریکِ انصاف کی جانب سے کی گئی ہے ان میں راولپنڈی ڈویژن کی 11 نشستیں بھی شامل ہیں۔ راولپنڈی ڈویژن کے کمشنر لیاقت چٹھہ نے ایک پریس کانفرنس میں ان 11 نشستوں پر دھاندلی کا دعویٰ کیا تھا۔ اب الیکشن کمیشن تحقیقات کر رہا ہے۔
ان نشستوں پر ہار جیت کا فرق 10 سے 11 ہزار ووٹ کا ہے۔ تاہم مسترد ووٹوں کی تعداد بھی اہم ہے۔
این اے 50 اٹک سے ہارنے والی امیدوار پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ایمان وسیم ہیں جنھیں 109189 ووٹ ملے جبکہ ن لیگ کے ملک سہیل خان 119075 نے ووٹ لیے۔ ملک سہیل کی برتری 9886 بنتی ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری فارم 47 کے مطابق مسترد ووٹوں کی تعداد 9939 ہے۔
این اے 59 تلہ گنگ کم چکوال میں جیتنے والے سردار غلام عباس نے 141680 ووٹ حاصل کیے جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار رومان احمد نے 129716 ووٹ حاصل کیے۔ دونوں کے درمیان ووٹوں کا فرق 11964 ہے جبکہ مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 24547 ہے۔
یہ بھی پڑھیں :
کھلی دھاندلی! پی ٹی آئی کے ساتھ جو ہو رہا ہے ن لیگ سے نہیں ہوا، امریکی ماہر
مبینہ انتخابی دھاندلی: پی ٹی آئی نے ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا
پی ٹی آئی نے کراچی بلدیاتی انتخابات کے نتائج مسترد کر دیے
گجرات کی دو نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ ق کے امیدوار چوہدری سالک حسین اور حسین الٰہی کامیاب ہوئے ہیں۔ حسین الٰہی این اے 63 سے کامیاب ہوئے ہیں اور انھیں اپنے حریف پر 6429 ووٹوں سے فتح حاصل ہوئی اور اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 5631 رہی۔
پی ٹی آئی سندھ کے 19 حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کرتی ہے۔ ان میں کراچی کی 18 نشستیں شامل ہیں۔
تحریک انصاف کی جانب سے سندھ کی جن نشستوں کے بارے میں مبینہ دھاندلی کا دعویٰ کیا گیا ہے ان کی تعداد 19 ہے جن میں سے حیدر آباد کی ایک نشست جبکہ کراچی سے قومی اسمبلی کی 18 نشستیں شامل ہیں۔ ان میں سے چار کے سوا تمام پر ایم کیو ایم جیتی ہے۔
کراچی میں این اے 235، این اے 236، این اے 237، این اے 239، این اے 240، این اے 241 اور این اے 244 پر ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں میں کڑا مقابلہ ہوا۔
این اے 239 میں پیپلز پارٹی کے نبیل گبول تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد یاسر سے صرف 2843 ووٹوں سے جیتے جبکہ اس حلقے میں 2564 ووٹ مسترد ہوئے۔ این اے 240 میں ایم کیو ایم کے امیدوار ارشد وہرا صرف 3255 ووٹوں کی سبقت سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کر ہرانے میں کامیاب ہوئے۔
Comments are closed on this story.