آڈیو لیکس: ’کیوں نہ وارنٹ جاری کیے جائیں‘ سرکاری افسران کی عدم پیشی پر عدالت برہم
اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں طلبی کے باوجود سینیئر افسران کی عدم پیشی پر ریمارکس دیے ہیں کہ ان افسران نے خود سے کیسے طے کرلیا کہ عدالت میں پیش نہیں ہوسکتے ، کیوں نہ وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکے بیٹے نجم ثاقب اور عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کی مبینہ آڈیو لیک کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران عدالتی حکم کے باوجود ڈی جی انٹیلیجنس بیورو، چئیرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اور ڈی جی ایف آئی اے پیش نہ ہوئے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ ڈی جی ایف آئی اے بیمار ہیں، ڈی جی آئی بی کی بھی طبعت ٹھیک نہیں ہے۔ چئیرمین پی ٹی اے ، چیئرمین پیمرا بھی عدالت نہ پہنچے جس پر عدالت نے برہمی کااظہارکیا۔
بشریٰ بی بی اورنجم ثاقب کی درخواستوں پرسماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے کی۔
عدالتی حکم کے باوجود سینئیرافسران پیش نہ ہوئے ۔۔ سرکاری حکام نے بتایاکہ ڈی جی ایف آئی اے بیمارہیں ، ڈی جی کی طبیعت ٹھیک نہیں ۔ڈی جی آئی بی کی جگہ ڈپٹی ڈی جی پیش ہوئے ہیں جبکہ ایف آئی اے کی جانب سے ڈپٹی ڈی جی پیش ہوئے۔
جسٹس بابرستار نے کہاکہ ایف آئی اے اورآئی بی کے ڈی جیز کی میڈیکل رپورٹ اگلی سماعت پر پیش کریں ، کیا ہم وارنٹ جاری کریں، ہم نے حکم دیا تھا توخود کیوں نہیں آئے، ٹیلی کام آپریٹرز رپورٹ دیں کہ ریکارڈنگ کے حوالے سے کیا طریقہ کار ہے،میڈیا بتائے کہ غیرمصدقہ آڈیولیکس چلانے کے لیے کون سا اندرونی مکینزم ہے،۔
عدالت نے قانونی معاونت کیلے پاکستان بار کونسل کودوبارہ نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی کردی ۔
گزشتہ سماعت پرڈی جی آئی بی، ڈی جی ایف آئی اے اور چئیرمین پی ٹی اے کو 19 فروری کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔
ہائیکورٹ کی جانب سے تمام ٹیلی کام آپریٹرز، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن، اے پی این ایس اور وائس چئیرمین پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے ڈی جی ایف آئی اے کو احکامات دیتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ پیش ہوں اور بتائیں کہ فون کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے؟ دوسری جانب ڈی جی انٹیلیجنس سے استفسار کیا کہ آئی بی یہ بتائے کہ پاکستان کے شہریوں کی سرویلنس کون کر سکتا ہے؟ اور کیا ریاست پاکستان کے پاس غیر قانونی سرویلنس سے محفوظ رہنے کی صلاحیت ہے؟
جبکہ عدالت کی جانب سے حکم میں کہنا تھا کہ چئیر مین پی ٹی اے بتائیں کہ موبائل فون صارفین کی کالز اور ڈیٹا محفوظ بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟ جسٹس بابر ستار نے نجم ثاقب کی پارلیمانی کمیٹی میں طلبی کی درخواست، آڈیو لیکس میں بشریٰ بی بی کی ایف آئی اے میں طلبی اور سینئر وکیل لطیف کھوسہ اور ان کے کلائنٹ بشریٰ بی بی کی گفتگو کی مبینہ آڈیو لیکس کے خلاف درخواستوں کو یکجا کر کے کی گئی سماعت کا تحریر حکم نامہ جاری کیا تھا۔
سماعت میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو ٹیلی فون کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ حکم نانے کے مطابق ایف آئی اے آڈیو لیکس شئیر کرنے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلی رپورٹ پیش کرے اور ڈی جی ایف آئی اے پیش ہوں اور بتائیں کہ فون کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کیسے ہو سکتی ہے۔
ٹیلی کام آپریٹرز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے عدالت کا لکھنا تھا کہ لائسنس میں ٹیلی فون کالز کو سننے یا ریکارڈ کرنے کے لیے قانونی طور پر مداخلت پر رپورٹ پیش کریں اور انٹیلی جنس ایجنسی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس متعلق خط و کتابت سے بھی آگاہ کریں۔ بتائیں کہ کسی بھی ریاستی اتھارٹی سے اپنے صارفین کا ڈیٹا شئیر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے۔
پی بی اے اور اے پی این ایس کو جاری نوٹسز میں عدالت کا کہنا تھا کہ بتائیں کیا پاکستان کا آئین اور قانون پروائیوٹ گفتگو کی غیر قانونی ریکارڈنگ نشر یا شائع کرنے کی اجازت دیتا ہے؟اگر اس بات کی اجازت نہیں تو اس پابندی پر عمل درآمد کے لیے کیا فریم ورک ہے؟
عدالت نے سینئر صحافی مظہر عباس اور جاوید جبار کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالتی معاونین قانونی طریقے سے حاصل کی گئی ویڈیوز یا آڈیوز نشر کرنے پر میڈیا کے کردار پر معاونت کریں اور بتائیں کہ آزادی صحافت، آزادی اظہار رائے اور کسی فرد کے حقوق میں توازن کیسے رکھا جا سکتا ہے؟
Comments are closed on this story.