یہ ہے طاقت کا کھیل، بھارت نے روسی تیل کی خریداری کو درست منوالیا
مغربی طاقتوں نے روس سے تیل اور دیگر اشیا کی خریداری پر پابندی لگارکھی ہے۔ دنیا بھر میں غریب ممالک روس سے سستا تیل خریدنے کے خواہش مند ہیں مگر مغربی طاقتیں انہیں ایسا کرنے نہیں دے رہیں۔
بھارت نے روس سے خام تیل خریدنا نہیں چھوڑا۔ مغربی طاقتوں کو اس پر اعتراض ہے مگر بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی ذہانت سے دو کشتیوں میں قدم رکھے ہوئے ہے اور اس معاملے میں اسے سراہا جانا چاہیے۔
ہفتے کو بھارت کے وزیر کارجہ جے ایس جے شنکر نے جرمنی میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران امریکی ہم منصب انٹونی بلنکن کے ساتھ ایک مباحثے میں شرکت کی اور روس سے تیل خریدنے کے فیصلے کا دفاع کیا۔
جب بھارتی وزیر خارجہ روس سے تیل خریدنے کے جواز میں دلائل دہے رہے تھے تب امریکی وزیر خارجہ مسکرا رہے تھے۔ ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ بھارت مغرب زدہ نہیں مگر مغرب سے غیر معمولی تعلقات کا حامل ضرور ہے۔
ان کا استدلال تھا کہ اگر بھارت کئی ممالک سے خام تیل حاصل کر رہا ہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس کی ضرورت کا معاملہ بھی ہے اور اس کی سفارت کاری و تجارتی صلاحیت کا مظہر بھی۔
واضح رہے کہ مغربی طاقت نے بین الاقوامی میکینزم کے تحت روس سے تیل خریدنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ پینل ڈسکشن کے دوران ایس جے شنکر نے کہا کہ ہم روس سے تیل خریدیں تو کسی کو کیا مسئلہ ہے؟ اگر ہم اس معاملے میں کئی آپشنز بروئے کار لاسکتے ہیں تو ہماری ذہانت اور مہارت کی ستائش ہونی چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور جرمن وزیر خارجہ اینالینا بربوک کی موجودگی میں بھارتی وزیر خارجہ نے کہا کہ آج کی دنیا میں، جو بہت زیادہ جُڑی ہوئی ہے، کسی بھی ملک سے ایک سمت میں تعلقات استوار کرنے کی توقع رکھنا غیر حقیقت پسندانہ طرزِ فکر ہے۔
یہ بھی پڑھیں :
پاکستان کے چینی کرنسی میں روسی تیل خریدنے پر امریکا کا ردعمل
خفیہ میٹنگ میں بھارت اور روس کے درمیان نئے عالمی نظام پر اتفاق، برطانوی اخبار کا دعویٰ
اس سے قبل یورپ کی طرف سے روس سے تیل خریدنے پر اعتراض پر ایس جے شنکر نے کہا تھا کہ یورپ اس معاملے میں دہرے معیار کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس سے بھارت جتنا تیل ایک ماہ میں خریدتا ہے اس سے زیادہ تیل تو یورپ ایک دن میں خریدتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ تیل کی خریداری سے متعلق بھارتی پالیسی نے عالمی مندی میں تیل کے نرخ بڑھنے نہیں دیے کیونکہ یورپ سے مسابقت کی صورت میں ایسا ہوسکتا تھا۔
Comments are closed on this story.