Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

’وفاقی حکومت ہمیں نہیں لینی چاہیے، نواز شریف کو تجویز‘ ن لیگ اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

حکومت سازی کا مرحلہ: پی پی اور ن لیگ رابطہ کمیٹیوں کا جمعہ کو ہونے والا اجلاس اب ہفتہ کو ہوگا
اپ ڈیٹ 17 فروری 2024 11:50am
فوٹو ۔۔۔ فائل
فوٹو ۔۔۔ فائل

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی زیرصدارت اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔ اجلاس کے شرکاء نے نواز شریف کو تجویز دی کہ وفاقی حکومت ہمیں نہیں لینی چاہیے۔ دوسری طرف حکومت سازی کے معاملے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رابطہ کمیٹیوں کا جمعہ کو ہونے والا اجلاس ملتوی کرکے ہفتے کو رکھ لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی کوآرڈینیشن کمیٹیوں کا جمعہ کو ہونے والا اجلاس ملتوی کردیا گیا، اجلاس میں حکومت سازی کے معاملات کو حتمی شکل دی جانا تھی۔

اجلاس مسلم لیگ (ن) کی کمیٹی کے لاہور میں اپنی قیادت سے مشاورت کے باعث ملتوی ہوا، دونوں جماعتوں کی کوآرڈینیشن کمیٹیوں کا تیسرا مذاکراتی دور اب ہفتے کو منسٹر انکلیو میں اسحاق ڈار کی رہائش گاہ پر ہوگا۔

’وفاقی حکومت ہمیں نہیں لینی چاہیئے، شرکاء کی نواز شریف کو تجویز‘

یاد رہے کہ جاتی امرا میں قائد ن لیگ نواز شریف کی زیرصدارت اہم پارٹی اجلاس ہوا۔ اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آگئی۔

اجلاس کے شرکاء نے نواز شریف کو تجویز دی کہ وفاقی حکومت ہمیں نہیں لینی چاہیے۔

اس موقع پر سابق وزیر اعظم اور پارٹی سربراہ نواز شریف نے کہا کہ حکومت کے لیے کسی کی غیر اصولی بات نہیں ماننا چاہیے۔

اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کچھ شرکاء نے رائے دی کہ ملک معاشی بحران کا شکار ہے، بچانے کی ضرورت ہے۔

شرکاء نے نواز شریف سے کہا کہ پنجاب میں آسانی سے حکومت بنا سکتے ہیں، صرف پنجاب پر فوکس کرنا چاہئے۔

یاد رہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی کمیٹیوں کے گزشتہ اجلاس کے حوالے سے ذرائع نے بتایا تھا کہ کمیٹی نے اتفاق کیا کہ جلد سے جلد حکومت سازی کے عمل کو مکمل کیا جائے، پیپلزپارٹی حکومت سازی کے حوالے سے باقاعدہ معاہدہ چاہتی ہے۔

پیپلزپارٹی نے صدر، اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے عہدوں پر حمایت بھی طلب کی ہے، پیپلزپارٹی نے معاشی استحکام کے لئے جامع پروگرام بنانے پر زور دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم کرنے کے لیے بھی اقدامات حکومت سازی معاہدہ کا حصہ ہوں گے۔

مسلم لیگ ن چیئرمین سینیٹ کا عہدہ چاہتی ہے جبکہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مسلم لیگ ن سے ہوگا جبکہ اسپیکر کے لیے سید یوسف رضا گیلانی یا راجہ پرویز اشرف پر غور ہورہا ہے۔

خیبر پختونخوا کے آزاد امیدواروں سے سیاسی پارٹیوں کے رابطے جاری

دوسری جانب خیبر پختونخوا کے آزاد امیدواروں سے سیاسی پارٹیوں کے رابطے جاری ہیں، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی نے پی کے 81 پشاور اور پی کے 106 لکی مروت کے آزاد امیدواروں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے دی۔

پیپلز پارٹی کے رہنماء یوسف رضا گیلانی اور پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کے نامزد امیدوار علی امین گنڈاپور نے آزاد امیدواروں سے رابطہ کرتے ہوئے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔

پشاور کے حلقہ پی کے 81 پر کامیاب ہو نے والے امیدوار ملک طارق اعوان نے آج نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے رابطوں کی تصدیق کی اور کہا کہ دونوں رہنماؤں نےجیت پر مبارک باد اور پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے تاہم احباب سے مشورے کے بعد جواب دینے کی یقین دہانی کروائی۔

ملک طارق کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی رہنما یوسف رضا گیلانی نے مضبوط جماعتوں کو شکست دینے پر مجھے داد بھی دی۔

خیبرپختونخوا کے حلقے پی کے 106 لکی مروت سے کامیاب والے آزاد امیدوار انعام ہشام اللہ نے بھی دونوں جماعتوں کے رابطوں کی تصدیق کی ہے۔

پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا نے عام انتخابات کی شفافیت پر تحفظات اٹھا دیے

پاکستان پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا نے عام انتخابات کی شفافیت پر تحفظات اٹھا دیے اور نتائج پر وائٹ پیپرز جاری کرنے کا اعلان کر دیا۔

پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر صدر سید محمد علی شاہ باچہ نے انتخابات کی نتائج پر وائٹ پیپر شائع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی خیبرپختونخوا نے بھی عام انتخابات کی شفافیت پر تحفظات ظاہر کردیے ہیں، الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں مکمل طور پر ناکام رہا انتخابات میں بہت سے جگہوں پر پی پی پی کو ہروایا گیا، خیبرپختونخوا میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے نتائج تبدیل کردیے گئے۔

سید محمد علی شاہ باچہ کا مزید کہنا تھا کہ انکوائری کرائی جائے کہ پختون خوا میں الیکشن کی رات آراوز نے اربوں روپے کیسے کمائے؟ پارٹی قیادت کی کال کا انتظار ہے جس کے بعد صوبہ بھر میں احتجاج کیا جائے گا۔

سید محمد علی شاہ باچہ نے تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمان کے ملاپ پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو عدم اعتماد کا سب سے بڑا فائدہ ملا، مولانا فضل الرحمان کو چار وزارتیں دی گئی تھیں اور بہت سے مراعات حاصل کی، گورنر خیبرپختونخوا اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی مولانا فضل الرحمان کو ملا، تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کا ملاپ دونوں نے اپنے نظریات دفن کردیے ہیں۔

حکومت سازی کا مرحلہ، اتحادیوں کے درمیان جامع فارمولا متوقع

اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے نگراں اعلیٰ سندھ سے ہوسکتے ہیں، قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر مسلم لیگ ن نے ایاز صادق کا نام پیش کیا ہے۔

پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان دوسرے راؤنڈ کی بات چیت شیڈیولڈ ہے تاہم جمعرات کو نہ ہوسکی تاہم فریقین نے تجاویز پر غور و خوض کے لیے مزید وقت مانگا ہے۔

قومی اسمبلی کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان بات چیت آج کسی وقت متوقع ہے۔

پی پی پی نے ن لیگ کو نئی حکومت کی تشکیل اور وزیر اعظم کے انتخاب میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کلیدی آئینی عہدوں کے لیے پی پی پی کی مدد کرے گی۔

انفرادی نوعیت کے مقابلوں کے باعث پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لیے دو کلیدی آئینی عہدوں پر اپنے امیدواروں کو منتخب کرنا بڑے دردِ سر سے کم نہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی قومی اسمبلی کے اسپیکر کی دوڑ میں شریک ہونے کے خواہش مند تھے تاہم پارٹی قیادت نے ان سے کہا ہے کہ فی الحال وہ اپنی سینیٹ کی نشست پر براجمان رہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہیں سینیٹ کے چیئرمین کے منصب کے لیے میدان میں اتارا جائے۔

اس دوران سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ کا نام قومی اسمبلی کے اسپیکر کے طور پر سامنے آیا ہے۔

پی پی پی کے سیکریٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف نے سیاسی مصالحت کے لیے اب تک پی پی پی سے باضابطہ رابطہ قائم نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ وہ پی پی پی سمیت تمام سیاسی قوتوں سے رابطہ کرے گی۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے پاس کوئی تجویز ہے تو 6 رکنی رابطہ کمیٹی سے ملے۔ اس کے بعد ہی پارٹی کی قیادت اس تجویز پر غور و خوض کرسکتی ہے۔

جمعرات کو زرداری ہاؤس میں بلاول بھٹو زرداری کو پی پی پی کی مرکزی مجلسِ عاملہ کے ارکان نے سیاسی جماعتوں سے رابطوں کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کرنے والوں میں قمر زمان کائرہ، سید مراد علی شاہ اور سعید گیلانی شامل تھے۔

اس دوران PP-89 (بھکر) سے منتخب ہونے والے آزاد امیدوار امیر محمد خان نے پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔

chairman senate

SPEAKER

FORMATION OF GOVERMNENT

AGREED FORMULA EXPRECTED