Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

آئی ایم ایف سے معاہدے سمیت نئی حکومت کے بڑے چیلنجز کیا ہوں گے

سیاسی عدم استحکام پر قابو، مہنگائی میں کمی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری کا گراف بھی نیچے لانا ہوگا
شائع 15 فروری 2024 03:04pm

پاکستان میں تشکیل پانے والی نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے معاہدہ ہوگا۔

ن لیگ کی طرف سے پی پی پی، ایم کیو ایم ق لیگ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے اعلان کے بعد یہ تو طے ہے کہ ن لیگ کو پھر ملک چلانے کا موقع ملا ہے۔ ن لیگ کے لیے ایک بڑا دردِ سر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پسپا ہونے کو تیار نہیں۔

پی ٹی آئی نے اعلان کیا ہے کہ انتخابی دھاندلی ثابت کرکے وہ اپنے ارکان کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرے گی اور واضح اکثریت کے ذریعے اپنی حکومت قائم کرے گی۔

قومی اسمبلی کے وجود میں آنے کے بعد جو بھی حکومت سنبھالے گا اس کے لیے مستقبل کی راہ گلزار نہیں بلکہ پرخار ہو گی۔

سب سے پہلا مسئلہ جو نئی حکومت کو درپیش ہو گا وہ بین الااقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کرنا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مدت اپریل میں ختم ہو جائے گی۔

جولائی 2023 میں نو ماہ کے لیے کیے گیے اس معاہدے کے تحت پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کیے گئے تھے جس کی وجہ سے معیشت کو کچھ سہارا ملا تھا، تاہم نئی حکومت کو ذمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی اگلے بجٹ کی تیاری اور ملک میں معاشی توازن برقرار رکھنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہو گی۔ اور استحکام کے لیے اس کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا پڑے گا۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر رضا باقر کہتے ہیں کہ پاکستان کو اگلے پانچ برس میں سات ارب ڈالر بیرونی قرضوں کی مد میں ادا کرنے ہیں۔ درآمدی بل کے لیے جو کچھ دینا ہوگا وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ایسے میں آئی ایم ایف سے معاہدے کے سوا چارہ نہیں۔

اردو نیوز کے ایک تجزیے کے مطابق پاکتان کو نئے قرضوں کے لیے سخت تر شرائط کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے کے علاوہ بعض معاملات میں سبسڈی کے خاتمے سے عام آدمی کے لیے مزید مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کہتے ہیں کہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف سے معاہدہ ہے۔ اس میں تاخیر کی گنجائش ہے نہ ناکامی۔ معاہدے کے بغیر بجٹ تیار کرنا بھی آسان نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف معیشتی ساخت میں تبدیلی کی بات کرے۔ قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ پر بھی بات ہوسکتی ہے۔

نئی حکومت کو ایک طرف تو مہنگائی پر قابو پانا ہوگا اور دوسری طرف بے روزگاری کا گراف بھی نیچے لانا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں۔ برآمدات بڑھائے بغیر زرِ مبادلہ کا حصول ممکن نہ ہوگا۔

قائداعظم یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس اور بین الااقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر فرحان صدیقی کہتے ہیں کہ ایسا لگتا تو نہیں کہ نئی حکومت فوری طور پر ملک میں سیاسی و معاشی استحکام یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ معیشت نہ سنبھلی تو مہنگائی کم ہوگی نہ بے روزگاری۔ یوں سیاسی استحکام بھی واقع نہ ہوسکے گا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اندرونی سلامتی یقینی بنانا بھی لازم ہے۔ بلوچستان کی صورت حال بگڑی ہوئی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پائے بغیر ملک کو حقیقی استحکام کی طرف نہیں لے جایا جاسکتا۔

اندرونی استحکام یقینی نہ بنایا جاسکا تو پاکستان خارجہ امور کے میدان میں بھی کمزور رہے گا۔

پاکستان

CHALLENGE FOR NEW GOVeRNMENt

POLITICAL STABILITY