خیبرپختونخواہ میں درخت کو گرفتار کیوں کیا گیا؟
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ میں ایک درخت گزشتہ 122 سال سے زنجیروں میں قید ہے، جو کہ اب تاریخی طور پر سب کی توجہ حاصل کر رہا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ برگد کے اس درخت کی داستان برطانوی دور سے شروع ہوتی ہے، جب ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف آزادی کا نعرہ بلند ہو چکا تھا۔
خیبر ایجنسی کی لنڈی کوتل چھاؤنی میں موجود یہ برگد کا درخت گزشتہ 122 سال سے یوں ہی کھڑا ہے، ہوا اس درخت کو خوب آزادی محسوس کراتی ہے، ساتھ ہی اس کی ٹہنیوں سے لپٹی زنجیریں اس کے پھلنے پھولنے میں رکاوٹ نہیں بن رہی ہے۔
اس درخت کے گرفتار کرنے کا واقعہ بھی کافی دلچسپ ہے، برگد کے اس درخت کو گرفتار کرنے کا حکم برطانوی فوجی افسر نے دیا تھا، انگریز جب سرحدی علاقے میں موجود تھے تو قبائلی اپنی زمین کی حفاظت اور اس سے محبت کی خاطر انگریزوں سے ہمہ وقت لڑنے کو تیار رہتے تھے۔
1898 میں جب جیمز سکوئڈ شراب کے نشے میں دھت تھے تو رات کے وقت وہ نشے کی حالت میں برگد کے اسی درخت کے قریب چلے گئے، اسی دوران انہیں یوں لگا کہ جیسے برگد کا یہ درخت ان پر حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا ہے۔
اس صورتحال پر فوجی افسر نے فورا اہلکاروں کو حکم دیا کہ اس درخت کو گرفتار کر لو، افسر کا یہ حیرت انگیز حکم سُن کر جوان بھی تذبذب کا شکار ہو گئے، البتہ افسر کا حکم بجا لاتے ہوئے اس درخت کو گرفتار کر لیا گیا۔
چونکہ جیمز سکوئڈ نامی برطانوی فوجی افسر اس چھاؤنی پر دورے پر آیا تھا اور جب اگلے روز جانے لگا تو اس درخت کو رہا کرنے کا حکم دینا بھول گیا، اور پھر وہ دن اور آج کا دن، یہ درخت یوں ہی ایک افسر کی غلط فہمی کی بنا پر سزا کاٹ رہا ہے۔
جبکہ اسی درخت پر ایک بورڈ بھی لٹکایا گیا ہے، جس پر انگریزی زبان میں لکھا ہے، کہ “میں گرفتار ہو گیا ہوں، ایک برطانوی افسر کو جو کہ نشے میں دھت تھا، اسے یہ لگا کہ میں اپنی اصل جگہ سے ہٹ رہا ہوں، تو اس نے مجھے گرفتار کرنے کا حکم دیا، اُس وقت سے میں گرفتار ہوں۔
Comments are closed on this story.