پی پی، پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتیں واضح، ن لیگ کو دو صوبوں میں اتحاد بنانا ہوگا
پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدوار اور سندھ میں پیپلزپارٹی صوبائی حکومتیں بنانے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ ن لیگ پنجاب میں صوبائی حکومت بنا سکتی ہے جب کہ بلوچستان میں ن لیگ اور پی پی دونوں ہی جوڑ جوڑ کے بعد حکومتیں بنا سکتے ہیں۔
تاہم یہ صرف نمبروں کی حد تک ہے۔ الیکشن کے بعد جوڑ توڑ زورشور پر ہے اور اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا؟ اس بات کا فیصلہ اتنا آسان نہیں۔
ملک کے کروڑوں شہریوں نے حق رائے دہی کے تحت 16ویں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اپنے نمائندگان کے چُناؤ کے لیے ووٹ ڈالا۔ پولنگ ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے بتدریج جاری کیے جانے والے نتائج مکمل ہونے کے بعد کون کس پوزیشن میں ہے، ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مجموعی طور پر کون کہاں کھڑا ہے؟ ایک نظر ڈالتے ہیں۔
قومی اسمبلی
قومی اسمبلی کی 266 نشستوں پر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 93 امیدواروں سمیت آزاد امیدواروں نے 101 نشستیں حاصل کیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن 75 نشستیں حاصل کرپائی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو 54 نشستوں پر کامیابی ملی۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے حصے میں 17 نشستیں آئیں۔
پاکستان مسلم لیگ کو 3، جمیعت علمائے اسلام پاکستان کو 4، استحکام پاکستان پارٹی کو 2، مجلس وحدت المسلمین پاکستان کو 1 نشست حاصل ہوئی۔
بلوچستان نینشنل پارٹی 2 جبکہ پاکستام مسلم لیگ (ضیاء)، پشتونخواہ نیشنل ملی عوامی پارٹی ، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ایک، ایک نشست حاصل کرپائیں۔
نوٹ: قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 8 باجوڑ میں انتخابات نہیں ہوئے جبکہ این اے 88 کا نتیجہ جاری نہیں کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں آزاد امیداروں کی ن لیگ اور پی پی میں شمولیت کا سلسہ شروع ہوگیا ہے۔
پہلے سے مسلم لیگ (ن) کے حامی چار امیدواروں نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے۔ تاہم اصل ہنگامہ [پی ٹی آئی کی حمایت سے الیکشن لڑنے والے وسیم قادر کی ن لیگ میں شمولیت](جب کہ پی ٹی آئی کے حامیوں ) پر ہو رہا ہے۔
اگر پی ٹی آئی کے اراکین آزاد ہی رہے تو مخصوص نشستوں کی بڑی تعداد ن لیگ کو مل جائے گی اور اس کے نمبروں میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
لیکن اس کے ساتھ ن لیگ اگر چند مزید پی ٹی آئی حمایت یافتہ اراکین بھی توڑ لیتی ہے تو بھی اس کے لیے حکومت بنانا آسان نہیں اور اسے پیپلز پارٹی کی حمایت درکار ہوگی۔
پنجاب اسمبلی
پنجاب اسمبلی میں 138 نشستیں آزاد امیدوار لے اُڑے جبکہ 137 مسلم لیگ ن کےحصے میں آئیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب سے صرف 10 نشستیں لے پائی۔
مسلم لیگ (ق) 8، جہانگیرترین کی استحکام پاکستان پارٹی 1، پاکستان مسلم لیگ (ضیاء) 1 اور تحریک لبیک پاکستان بھی ایک نشست پر کامیاب ہوئیں۔
نوٹ: پنجاب اسمبلی کے حلقہ پی پی 226 رحیم یارخان میں انتخابات ملتوی ہوگئے۔
پنجاب اسمبلی میں ن لیگ کے لیے حکومت بنانا نسبتا آسان ہوگا۔ مسلم لیگ ق، استحکام پاکستان پارٹی اس کے فطری اتحادی ہیں جب کہ آزاد اراکین میں سے بھی کئی اس کے ساتھ آئیں گے۔ اس کے باوجود پی ٹی ائی حمایت یافتہ آزاد اراکین کی بڑی تعداد اس کے لیے خطرہ ضرور ہے۔
آزاد منتخب ہونے والے 138 اراکین میں سے 116 پی ٹی آئی حمایت یافتہ ہیں۔
آج نیوز لاہور بیورو چیف سلیم شیخ کا کہنا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت بننے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
سندھ اسمبلی
سندھ اسمبلی کی 129 نشستوں پر پاکستان پیپلز پارٹی 84 نشستوں کے ساتھ سرفہرست رہی۔
ایم کیو ایم پاکستان کراچی کی 17 نشستوں سمیت سندھ بھرسے 28 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔ آزاد امیدواروں کے حصے 12 نشستیں آئیں۔
گرینڈ ڈیمو کریٹک اور جماعت اسلامی پاکستان کو 2، 2 نشستوں پر کامیابی ملی۔
نوٹ: حلقہ پی ایس 18 کا نتیجہ جاری نہیں کیا گیا۔
یہ صورت حال پیپلز پارٹی کے لیے بہت سازگار ہے اور وہ بہت سکون کے ساتھ مسلسل چوتھی مرتبہ صوبے میں حکومت بنا سکتی ہے۔
خیبرپختونخوا اسمبلی
خیبرپختونخوا اسمبلی کی 112 نشستوں کے لیے آزاد امیدوار 90 نشستوں کے ساتھ آگے رہے۔ ان میں سے پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد اراکین کی تعداد 87 ہے۔
جمعیت علمائے اسلام پاکستان 7 اور مسلم لیگ ن 5 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔
پاکستان پیپلز پارٹی 4 جبکہ جماعت اسلامی 3 نشستیں لے پائی۔
پرویز خٹک کی پاکستان تحریک انصاف پارلیمینٹیرینز 2 نشتیں جیت پائی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے حصے میں ایک نشست آئی۔
نوٹ: خیبرپختونخواہ کے حلقہ پی کے 90 کا نتیجہ روک دیا گیا جبکہ پی 22 اور 91 پر الیکشن ملتوی ہوگئے۔
خیبرپختونخوا کی صورت حال سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں پر پی ٹی آئی حمایت یافتہ اراکین کی تعداد 2018 کی صوبائی اسمبلی میں پی ٹی آئی کی جنرل نشستوں پر منتخب اراکین کی تعداد یعنی 65 سے بھی زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے پی ٹی آئی حمایت یافتہ اراکین حکومت بنا سکتے ہیں۔
لیکن سیاسی حالات کچھ اور ہیں۔ پی ٹی آئی کو ایک چیلنج وزارت اعلیٰ کے منصب کے لیے پارٹی کے اندر جاری کشمکش کا ہے۔ پارٹی میں وزارت اعلیٰ کے لیے پانچ گروپ سامنے آچکے ہیں۔
کیا پی ٹی آئی کی یہ کشمکش جے یو آئی اور ن لیگ کو موقع فراہم کر سکتی ہے۔ آج نیوز پشاور کی بیورو چیف فرزانہ علی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی مخالف گروپ مل جل کر بھی 54 نشستوں تک پہنچ سکتے ہیں جب کہ حکومت سازی کے لیے 74 نشستیں درکار ہیں۔
بلوچستان اسمبلی
بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور مسلم لیگ (ن) بڑی جماعتیں بن کر سامنے آئی ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کی 51 نشستوں میں سے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے حصے میں 11 نشستیں آئیں۔ مسلم لیگ ن نے 10 نشستیں حاصل کیں اور پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز بلوچستان سے 11 نشستوں پر کامیاب ہوئی۔
آزاد امیدوار 6 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔
دو نشستوں پرعوامی نیشنل پارٹی، 4 پر بلوچستان عوامی پارٹی، 3 پر نیشنل پارٹی اورایک پر بلوچستان نیشنل پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) اور حق دو تحریک بلوچستان کے حصے میں ایک۔ ایک نشست آئی۔
جماعت اسلامی بھی ایک نشست پر کامیاب ہوئی۔
مسلم (ن) اور جے یو آئی روایتی اتحادی ہیں۔ لہٰذا ان کے درمیان اتحاد کا امکان ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی صوبے میں جوڑ توڑ میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اور اس کی نشستیں بھی معقول ہیں۔ لہذا یا حتمی صورت حال سیاسی جوڑ توڑ مکمل ہونے کے بعد ہی واضح ہوگی۔
Comments are closed on this story.