Aaj News

بدھ, نومبر 20, 2024  
18 Jumada Al-Awwal 1446  

’پسِ پردہ اقدامات سے پاکستان کے حالات مزید خراب ہوں گے‘

ملک کو شفاف معاملات و اقدامات کی ضرورت ہے، بانی پی ٹی آئی تاحال مقبول ترین سیاست دان، گارجین کا اداریہ
شائع 08 فروری 2024 06:50pm

پاکستان میں انتخابات کے موقع پر اپنے ایک اداریے میں برطانوی اخبار دی گارجین نے لکھا ہے کہ معاشیات، سیاسیات اور سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کے بحران شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایسے میں پسِ پردہ اقدامات معاملات کو مزید خراب کریں گے۔ لازم ہے کہ جو کچھ بھی کیا جائے وہ شفاف طریقے سے، سامنے آکر اور پورے اعتماد و تیقین کے ساتھ کیا جائے۔

اخبار نے پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کے خلاف مقدمات اور پھر ان کے فیصلے آنے تک کی صورتِ حال کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک بار پھر فوج جیت گئی ہے۔

اگر کسی کو عمران خان کے خلاف مقدمات کے حوالے سے کوئی شک تھا تو وہ مقدمات کے فیصلوں کی ٹائمنگ سے دور ہوگیا۔ عمران خان کو جیل میں ڈالا جاچکا تھا اور انتخابات میں حصہ لینے سے تو انہیں پہلے ہی روکا جاچکا تھا۔ انہیں سنائی جانے والی سزائیں پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والے تمام افراد کے لیے انتباہ کا درجہ رکھتی ہیں۔

تاخیر سے ہی سہی، انتخابات کا انعقاد عام آدمی کے لیے سکون کا سانس لینے کا موقع ہے مگر اِس سے زیادہ تو یہ اس بات کا مظہر ہے کہ فوج نے پورے اطمینان کے بعد گرین سگنل دیا ہے کہ اب عمران خان کی فتح کا کوئی امکان نہیں۔ ویسے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت عمران خان سب سے زیادہ مقبول سیاست دان ہیں۔

پاکستان قوم کے لیے انتخابات بہرحال خوش آئند ہیں کہ ملک کی عمر کا نصف سے زائد تو براہِ راست اقتدار میں نہیں تھی تب بھی معاملات جرنیلوں ہی کے ہاتھ میں رہتے آئے ہیں۔ 2022 میں سبک دوش ہونے والے آرمی چیف نے سیاسی معاملات میں مداخلت کا اعتراف کیا تھا۔ اس عزم کا اظہار بھی کیا گیا کہ اب ایسا نہیں ہوگا۔

خیر، اس عزم کے باوجود عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی پر دباؤ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے نتیجے میں پی ٹٰی آئی کے بیشتر رہنما یا تو جیل میں ڈال دیے گئے یا پھر دباؤ ڈال کر انہیں کسی اور جماعت میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے عام کارکنوں کو حراست میں رکھ کر دھمکایا جاتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہزاروں امیدواروں کے کاغذتِ نامزدگی مسترد کردیے گئے۔

الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی اے اس کا انتخاب نشان بھی چھین لیا۔ یہ اقدام اس اعتبار سے اہم تھا کہ پاکستان میں 40 فیصد لوگ ناخواندہ ہیں۔ میڈیا پر دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کے تذکرے سے گریز کریں۔

عمران خان اس وقت اقتدار کے ایوان میں پہنچے جب انہوں نے فوج کے حق میں بولنا شروع کیا۔ وزیر اعظم کی مسند پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے چند ایک بڑی غلطیاں کیں۔

ایک بڑی غلطی تو یہ تھی کہ انہوں نے سخت گیر رویے کے ساتھ خود پسندانہ اور آمرانہ طریقِ حکمرانی اختیار کیا۔ ان کے دور میں معیشت میں کی کارکردگی بھی اچھی نہیں رہی۔ جب انہوں نے جرنیلوں کو برگشتہ کیا تب ان کے لیے سانچا بننے کا عمل شروع ہوگیا۔

عمران خان کو محض برطرف نہیں کیا گیا بلکہ مختلف النوع الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ان سے قبل نواز شریف کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اب نواز شریف کے بارے میں بھرپور توقع ہے کہ وہ چوتھی بار وزیر اعظم بنیں گے۔

جب عمران خان کو اوندھے منہ گرادیا گیا تب نواز شریف کی جلا وطنی بھی ختم ہوئی اور انہیں عمر بھر کے لیے سیاست کے لیے نا اہل قرار دینے کا فیصلہ بھی پلٹ دیا گیا۔ ویسے اقتدار کے ایوان تک پہنچنے کے خواہش مندوں میں نواز شریف تنہا نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اس دوڑ میں شریک ہیں۔

جب عمران خان گرفتار کیے گئے تھے تب پی ٹی آئی کے کارکنوں اور عمران خان کے عام حامیوں نے شدید احتجاج کیا تھا۔ اس کے بعد کئی ماہ سے قدرے سکون اس بات کی علامت ہے کہ حکومت کی طرف سے کریک ڈاؤن غیر معمولی رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے بیشتر کارکنوں اور حامیوں کی شدید حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی اکثریت نے ووٹ کاسٹ کرنے کی زحمت گوارا نہ کی ہو۔ ویسے مستحکم اور مستند نتائج کے بغیر شدید سیاسی عدم استحکام کا خطرہ توانا ہے۔

یہ بھی پڑھیں :

جتنا بھی دباؤ ہو پاکستان چین کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کرے گا، وزیراعظم

اُمید ہے پاکستان میں صاف و شفاف الیکشن ہونگے، امریکی سفیر

اس وقت نمایاں ترین نکتہ یہ ہے کہ سیاست میں فوج کی مداخلت سے پاکستان کو کچھ فائدہ نہ پہنچ سکے گا۔ ملک شدید بے روزگاری کی زد میں ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی قوتِ خرید جان لیوا حد تک کم کردی ہے۔ افلاس کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ حکمرانی کا معیار انتہائی پست ہے۔ عام آدمی کے بنیادی مسائل حل نہیں ہو پارہے۔ سیلاب آتا ہے تو ملک مزید پیچھے چلا جاتا ہے۔

بیرونی قرضے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں۔ سلامتی کا مسئلہ ڈرامائی طور پر سنگین تر شکل اختیار کرچکا ہے۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آ جانے کے بعد سے اب تک سرحدی علاقوں میں دہشت گردی سے ایک ہزار سے زائد پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں۔

معاشی امور بہتر بنانے کی صلاحیت کے حوالے سے نواز شریف کچھ بہتر ہیں مگر فوج کی طرف سے پہلے ہی عندیہ دیا جاچکا ہے کہ وہ پیچھے نہیں ہٹے گی۔ سیاسی محاذ آرائی، اداروں کی خراب کارکردگی اور فوج کی طرف سے ڈوریاں ہلانے سے ملک کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے۔ جب تک جرنیل طے کرتے رہیں گے کہ کون جیتے گا اور کون حکومت کرے گا تب تک وہی حقیقی فاتح رہیں گے۔

Nawaz Sharif

imran khan

the guardian

PAK ELECTIONS

EDITORIAL