الیکشن سے قبل قومی ائرلائن کی نجکاری کا عمل مکمل کرنے کی تیاری
نگراں حکومت نے عام انتخابات سے قبل قومی ایئر لائن کی نجکاری کے معاملے کو حتمی شکل دینے کی تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ نگراں حکومت ڈیل مکمل کرکے جائے گی۔ نئی حکومت کے پاس اس ڈیل کو صرف منظور کرنے کا آپشن رہ جائے گا۔ یہ بات متعلقہ نگراں وفاقی وزیر اور اعلیٰ حکام نے بتائی ہے۔
ماضی میں حکومتیں ایسے اقدامات سے گریز کرتی رہی جو ان کی مقبولیت پر اثر ہوسکتے ہوں۔ پی آئی اے کی نجکاری بھی ایسا ہی معاملہ رہا ہے۔ گزشتہ جون میں حکومت نے شدید مالیاتی بحران کے پیش نظر آئی ایم ایف کے نئے قرضے کی ایک شرط کے طور پر قومی ایئر لائن کی نجکاری پر آمادگی ظاہر کی۔ آئی ایم ایف سے سمجھوتے پر دستخط کے بعد حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا۔
اگست 2023 میں ملک کا نظم و نسق سنبھالنے والی نگراں حکومت کو پارلیمنٹ کی طرف سے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے طے شدہ بجٹ اہداف حاصل کرنے کے لیے ضروری سمجھے جانے والے تمام اقدامات کرے۔
نگراں وزیرِ نجکاری فواد حسن فواد نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہمارا کام 98 فیصد مکمل ہوچکا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد معاملات کو دستاویزی شکل دینے کا 2 فیصد کام بھی کرلیا جائے گا۔
فواد حسن فواد کا کہنا ہے کہ اس ڈیل کے مشیر ارنسٹ اینڈ ینگ کے تیار کردہ نجکاری منصوبے کو نگراں حکومت کی میعاد ختم ہونے سے قبل منظوری کے لیے، الیکشن کے بعد، وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا۔ کابینہ طے کرے گی کہ قومی ایئر لائن کو ٹینڈر کے ذریعے فروخت کیا جائے یا بین الحکومتی سطح پر سودا کیا جائے۔
گزشتہ برس 30 جون تک پی آئی اے کے واجبات 785 ارب روپے تھے جبکہ خسارہ 713 ارب روپے تھا۔ سی ای او نے کہا تھا کہ 2023 کا خسارہ 112 ارب روپے ہوسکتا تھا۔ خریدار کو 51 فیصد کے ساتھ انتظامی کنٹرول بھی دیا جائے گا۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے بتایا کہ ادارہ نجکاری کے عمل میں بھرپور تعاون کر رہا ہے۔
پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے ایک مسودہ قانون کے مطابق 2016 کے ایک قانون میں ترمیم کے ذریعے حکومت نے قومی ایئر لائن میں اکثریتی حصص کی فروخت کی راہ میں رکاوٹ دور کی ہے۔
جنوری کے وسط میں آئی ایم ایف نے سرکاری اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کیے جانے کو سراہا تھا۔ آئی ایم ایف نے پی آئی اے کی نجکاری کے قانون کا بھی حوالہ دیا تھا۔
پی آئی کے واجبات اور قرضوں وغیرہ کے بھگتان کے لیے ملک کے سات بینکوں کا کنسورشیم بنایا گیا تھا۔ نجکاری منصوبے کے مطابق واجبات اب ایک ہولڈنگ کمپنی میں پارک کیے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق پہلے بینکوں نے پانچ سال کے لیے 16.5 فیصد کی شرحِ منافع والے بونڈز جاری کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وزارتِ خزانہ 10 فیصد منافع کی پیشکش کر رہی تھی۔ بینکوں نے اس ڈیل پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
قرضوں اور خساروں کے علاوہ کئی ملکوں کے اور عالمی ہوا بازی اداروں نے پی آئی اے کے سفیٹی اسٹینڈرڈ پر بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ 2020 کے اوائل میں چیک جمہوریہ اور ہنگری کے جیٹ طیاروں نے پی آئی اے کی ایک پرواز کا تعاقب کیا تھا کیونکہ وہ کسی انسانی غلطی کے نتیجے میں اپنے راستے سے ہٹ گئی تھی۔ اس پرواز میں 300 افراد سوار تھے۔
یہ بھی پڑھیں:
ایف بی آر نے پی آئی اے کے تمام اکاؤنٹس منجمد کردیے
ایف بی آر سے کامیاب مذاکرات کے بعد پی آئی اے کے تمام اکاؤنٹس بحال
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پی آئی اے کیلئے 8 ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دے دی
مئی 2020 میں پی آئی اے کا ایک مسافر بردار طیارہ کراچی ایئر پورٹ پر لینڈنگ سے چند لمحات پہلے آبادی پر گر گیا تھا جس کے نتیجے میں 100 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اسی سال کے اواخر میں پائلٹس کے جعلی لائسنس کا اسکینڈل بھی سامنے آیا تھا۔ اس اسکینڈل کے نتیجے میں فضائی سفر کی سلامتی سے متعلق یورپی یونین کے ادارے نے یورپ میں انتہائی پرکشش روٹس پر پی آئی اے کی پروازیں روک دی تھیں۔
یہ پابندی اب تک برقرار ہے اور اس کے نتیجے میں قومی ایئر لائن کو سالانہ 40 ارب روپے تک کا نقصان پہنچ رہا ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری سے سب خوش نہیں۔ چند اعلٰی افسران کا کہنا ہے کہ نجکاری سے قومی ایئر لائن کی ساکھ خراب ہوگی۔ علاوہ ازیں اس ڈیل کے شفاف نہ ہونے کا بھی خدشہ ہے۔
پی آئی اے کے بعد سلاٹ ترکیہ اور قطر کی ایئر لائنز سے مفاہمت کے ذریعے برقرار رکھے گئے ہیں۔ اس وقت 150 ملکوں سے پی آئی اے کا ایئر سروس ایگریمنٹ ہے جس کے تحت، یورپی یونین کی پابندی کے باوجود، سالنہ 280 روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔
لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر پی آئی اے کے لیے 10 سلاٹ ہیں جن سے سالانہ 70 ارب روپے تک کی آمدنی ہوتی ہے۔
ریکارڈ کے مطابق پی آئی اے کے طبعی اثاثے (طیارے، نیو یارک اور پیرس میں ہوٹل اور دیگر املاک) تقریبا 105 ارب 60 کروڑ روپے کے ہیں۔ پی آئی اے کے حکام کہتے ہیں کہ تمام طبعی اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ ہوتل اور دیگر املاک بہرحال فروخت نہیں کی جائیں گی۔
Comments are closed on this story.