خواتین کی انتخابی مہم کیخلاف فتویٰ، نفرت کا نتیجہ یا عورتوں کی طاقت کا خوف
کوہستان کے علماء کے ایک گروپ نے خواتین امیدواروں کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کے خلاف فتویٰ جاری کرتے ہوئے اسے غیر اسلامی قرار دیا ہے، تاہم، مقامی سیاست دان کا کہنا ہے کہ فتویے کی وجہ خواتین کے خلاف نفرت نہیں، بلکہ کوہستانی معاشرے میں خواتین کے طاقتور کردار کے غلط استعمال کو روکنا تھا۔
پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور یہ فتویٰ الیکشنز سے صرف دو ہفتے قبل آیا ہے۔
کوہستان میں پہلی بار تین خواتین انتخابی میدان میں اتری ہیں، جن میں سے دو پی ٹی آئی کی اور ایک آزاد امیدوار ہے۔
خیبرپختونخوا کے حلقہ پی کے 31 سے پی ٹی آئی امیدوار تہمینہ فہیم، پی کے 33 کولائی پالس سے پی ٹی آئی امیدوار مومنہ باسط اور آزاد امیدوار سنایا سبیل الیکشن لڑ رہی ہیں۔
کوہستان کے علاقے کمیلا میں ایک مدرسے کے سربراہ مفتی گل شہزادہ نے ضلع بالائی کوہستان کے علاقے کندیا میں علماء کے اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ ’خواتین کا گھر گھر جا کر ووٹ مانگنا شریعت کے خلاف ہے‘۔
ایک مقامی ذریعے نے آج نیوز کو بتایا کہ کوہستان کے علاقے کومیلا میں تقریباً 400 علمائے کرام جمع ہوئے اور اجتماع کا اختتام چھ نکاتی ’اعلان‘ یا فتویٰ کے ساتھ ہوا۔ بعد میں ایک اور ذریعہ نے شرکاء کی تعداد صرف 30 سے 40 بتائی۔
ذرائع کے مطابق خواتین کی انتخابی مہم کے خلاف فتویٰ 30 مجاز مذہبی اسکالرز نے جاری کیا۔
اجلاس کے شرکاء نے مفتی گل شہزادہ کے اس فتوے کی تائید کی۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو ووٹروں کے گھروں تک لے جانا شریعت کے خلاف ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اسلامی نظام حکومت میں مخالف خیالات رکھنے والے امیدوار کو ووٹ دینا جھوٹ کی حمایت کے مترادف ہے، جو کہ ایک بہت بڑا گناہ ہے۔
فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ ووٹروں کو قرآن پاک پر حلف اٹھانے پر مجبور کرنا بھی شریعت کے خلاف ہے۔
فتویٰ میں کہا گیا کہ مالیاتی فوائد کے بدلے ووٹ دینا رشوت ستانی کی بدترین شکل ہے اور قومی، علاقائی یا نسلی تفریق کی بنیاد پر ووٹ ڈالنا قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ووٹوں میں تفریق کا عمل علمائے کرام کے نظریے کے خلاف ہے۔
اعلامیہ پر کم از کم 18 علمائے کرام کے ناموں کے ساتھ دستخط ہیں۔
جب آج ڈیجیٹل نے سابق ناظم کمیلا کوہستان بخت بلند سے اس اعلامیے پر بات کی تو انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اعلامیہ کا پس منظر وہ روایت ہے کہ جب کسی مخالف کو منانے یا صلح کے لئے خواتین کو ان کے گھر بھیجا جاتا ہے، جس میں بعض اوقات وہ قران پاک بھی لے کر جاتی ہیں تو مخالف فریق، پارٹی یا امیدوار یا ووٹر کوئی بھی ہو تو ان کے پاس سوائے صلح یا بات ماننے کے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا اور یہ روایت برسوں سے یہاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس لئے یہ نقطہ اس میں شامل کیا گیا ہے۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کوہستان میں پہلی بار خواتین جنرل الیکشن میں جنرل نشستوں پر میدان میں ہیں تو کیا یہ نقطہ اُن کی الیکشن مہم کو تو متاثر نہیں کرے گا؟
جس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نہیں سمجھتے کیونکہ جن علماء کے گروپ نے یہ اعلامیہ جاری کیا ہے اُن کی حقیقیت سب کو معلوم ہے۔
خیال رہے کہ کوہستان پاکستان کے شمال میں ایک قدامت پسند پہاڑی علاقہ ہے۔
ضلع کی مقامی سیاست پر کئی دہائیوں سے مذہبی جماعتوں کا غلبہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 1993 کے بعد سے یہاں ایک بھی قومی الیکشن نہیں جیتا ہے۔
Comments are closed on this story.