عدالت نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق سندھ پولیس کے اقدامات غیرسنجیدہ قرار دیدیے
سندھ ہائی کورٹ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق پولیس کے اقدامات کو غیرسنجیدہ قرار دے دیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی۔
دورانِ سماعت عدالت نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں ایسے میں عوام کا اعتماد آپ پر رہے گا؟ پولیس کا رویہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔
تفیشی افسر نے عدالت کو جواب دیا کہ شہری طاہر علی سیاسی جماعت کا کارکن تھا، وہ ازخود لاپتا ہے۔
جسٹس خادم حسین تنیو نے استفسار کیا کہ آپ کو کیسے علم کہ وہ خود لاپتا تھا؟ بندہ 2015 سے لاپتا ہے، اب بول رہے ہیں خود کہیں چلا گیا ہے، لاپتا شہری کا سراغ نہیں لگایا گیا اور کیسے حتمی رائے قائم کرلی کہ خود چلا گیا ہے؟ اِس قسم کا بیان دینے پر تو آپ کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیے کہ اگر شہری ازخود روپوش ہے تو تلاش کرنا اور بھی آسان ہے۔
عدالت نے شہری محمد اسمعٰیل اور دیگر کی بازیابی سے متعلق بھی 28 فروری کو رپورٹ طلب کرلی۔
صوبائی ٹاسک فورس، سربراہ جے آئی ٹی طلب
سندھ ہائیکورٹ نے 8 سال سے لاپتا شخص کاسراغ نہ لگانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی ٹاسک فورس اور سربراہ جے آئی ٹی کو طلب کر لیا، عدالت نے ڈی آئی جی کو کیس کا تفتیشی افسر بھی تبدیل کرنے کا حکم دے دیا۔
تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ شہری کا سراغ لگانے کے لیے جے آئی ٹیز کے 46 اور صوبائی ٹاسک فورس کے 15 اجلاس ہو چکے ہیں، شہری عبدالرحمٰن کی جبری گمشدگی ثابت ہو چکی ہے۔
وزارتِ دفاع کے نمائندے نے تحریری جواب جمع کرا دیا جس میں کہا گیا ہے کہ عبدالرحمٰن کسی بھی وفاقی ادارے کی تحویل میں نہیں، وفاقی حکومت کے ماتحت کسی بھی ادارے نے عبدالرحمٰن کو گرفتار نہیں کیا، شہری نے ملک سے باہر بھی سفر نہیں کیا۔
عبدالرحمٰن کی والدہ نے بتایا کہ بیٹے کو گھر سے لے جایا گیا اور کہا گیا کہ تحقیقات کر کے چھوڑ دیں گے۔
رینجرز کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ دوبار تحریری جواب جمع کرا چکے ہیں، عبدالرحمٰن کو رینجرز نے حراست میں نہیں لیا۔
دریں اثنا عدالت نے لاپتا شہری سے متعلق 27 فروری کو رپورٹ طلب کر لی۔
سماعت کے بعد لاپتا شہری عبدالرحمٰن کی فیملی نے کمرہ عدالت کے باہر ہنگامہ آرائی کی، شور شرابے پر لیڈیز پولیس خواتین کو قابو کرتی رہیں۔
Comments are closed on this story.