Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

ایودھیہ میں عظیم الشان مسجد کی تعمیر رواں سال شروع ہوگی

انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن نے منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کا اعلان کردیا
اپ ڈیٹ 23 جنوری 2024 02:44pm
تصویر: انڈیا ٹوڈے
تصویر: انڈیا ٹوڈے

انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کی جانب سے بھارتی ریاست اترپردیش میں رواں سال ایک پرتعیش مسجد کی تعمیرکے منصونے کو عملی جامہ پہنانے کا اعلان کردیا۔

انڈو اسلامک کلچرل فاؤنڈیشن کے سینئر عہدیدار حاجی عرفات شیخ کا کہنا ہے کہ رواں سال مئی میں اترپردیش کے شہر ایودھیا (فیض آباد) میں ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر شروع کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس مسجد کی مکمل تعمیر میں 3 سے 4 سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ امکان ہے کہ مسجد کی تعمیر کے اخراجات کیلئے کراؤڈ فنڈنگ ویب سائٹ قائم کی جائے اور مسجد کا نام ’مسجد محمد بن عبداللہ‘ رکھا جائے گا۔

حاجی عرفات شیخ کا کہنا ہے کہ ’ہماری کوشش لوگوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کو محبت میں تبدیل کرنے کی رہی ہے، اس بات سے قطع نظر کہ آپ بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں یا نہیں، اگر ہم اپنے بچوں اور لوگوں کو اچھی چیزیں سکھائیں تو یہ تمام لڑائی بند ہو جائے گی‘۔

فاؤنڈیشن کے صدر ظفر احمد فاروقی کے مطابق مسجد کی تعمیر کے فنڈز کیلئے نہ کوئی عوامی تحریک چلائی گئی اور نہ ہی کسی سے رابطہ کیا گیا ہے۔

فاؤنڈیشن کے سیکریٹری اطہر حسین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ چونکہ مسجد کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی ہے، اس لئے تعمیرتاخیر کا شکار ہوئی ہے۔ مسجد کے ساتھ 500 بستروں کا اسپتال بھی تعمیر کیے جانے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ توز ایودھیا (فیض آباد) میں رام جنم بھومی مندر کا افتتاح کیا تھا جو تاریخی بابری مسجد کومسمار کرنے کے بعد تعمیر کیا گیا ہے۔

سال 2019 میں بھارتی سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 1992 میں بابری مسجد کا انہدام غیر قانونی قرار دیا تھا۔

بابری مسجد کا پس منظر

1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔

برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔

بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔

1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔

حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیےکئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019 کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا۔

india

Uttar Pradesh

construction

lifestyle

Ayodhya

BABARI MASJID