’سیکولر بھارت‘ کے وزیراعظم نے بابری مسجد کے ملبے پر تعمیر رام مندر کا افتتاح کردیا
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے آج اتر پردیش کے شہر ایودھیا (فیض آباد) رام جنم بھومی مندر کا افتتاح کیا۔ اس تقریب کو مودی سرکار نے انتخابی مہم کا حصہ بناکر غیر معمولی، بلکہ فیصلہ کن سیاسی فوائد بٹورنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی رہی ہے۔
1947 میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کانگریس نے پنڈت جواہر لعل نہرو کی قیادت میں ملک کو سیکیولر قرار دیا تھا اور اس ڈاکٹرائن کو عام کرنے کی بھرپور کوشش بھی کی گئی تاہم کم و بیش چار عشروں کے بعد ملک بھر میں ہندو انتہا پسندی نے سر اٹھانا شروع کیا۔
انتہا پسند گروپ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے قیام کو سو سال ہوچکے ہیں۔ اس گروپ نے ملک میں ہندو بنیادی پرستی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی تاہم اسے 1980 کےعشرے تک بھرپور کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
رام مندر کا معاملہ بھارتی سیاست کو تقریباً چار عشروں سے فیصلہ کن سمت دینے میں کامیاب رہا ہے۔ ایودھیا میں سولہویں صدی کی بابری مسجد کا نام و نشانہ مٹاکر وہاں رام جنم بھومی مندر تعمیر کرنے کی خواہش انتہا پسند ہندوؤں کے دل و دماغ میں سات آٹھ عشروں سے رہی ہے تاہم 1990 کی آمد تک وہ کچھ خاص نہ کرسکے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی انتہا پسندی کی بات ضرور کرتی رہی ہے تاہم مرار جی ڈیسائی اور اٹل بہاری واجپائی جیسے اعلیٰ ذہن کے مالک سربراہوں کی موجودگی میں وہ انتہا پسندی کی طرف نہ جاسکی۔
بی جے پی کی قیادت جب لعل کشن چند ایڈوانی کو ملی تب بابری مسجد کو ہٹاکر رام مندر بنانے کی تحریک نے زور پکڑا۔ 1990 کا عشرہ آنے تک یہ تحریک اس قدر زور پکڑگئی کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ دونوں کے لیے اِسے کنٹرول کرنا ممکن نہ رہا۔
رام مندر کی سیاست نے جب زور پکڑا تو ملک بھر کے لاکھوں انتہا پسندوں کے جذبات پکڑا اور یوں 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کردیا گیا۔
رام مندر کے نام پر کی جانے والی سیاست نے ملک میں کئی بار مسلم کش فسادات کرائے۔ ان فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر بھی شدید نوعیت کے مسلم کش فسادات ہوئے تھے جن میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کردیا گیا تھا۔
بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں انتہا پسندی نے فیصلہ کن حد تک زور پکڑا۔ مسلمانوں کے خلاف ملک بھر میں نفرت پھیلائی گئی۔ عام مسلمان کو دہشت گردی ٹھہرانے کی ہر وہ کوشش کی گئی جو کی جاسکتی تھی۔ یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے اب ملک کی دوسری مذہبی اقلیتوں سے بھرپور نفرت کے موڑ تک آگئی ہے۔ سکھوں کے بعد مسیحی بھی نشانے پر ہیں۔
آر ایس ایس اور دیگر انتہا پسند گروپوں کا دعویٰ رہا ہے کہ جس جگہ بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی وہاں پہلے ایک مندر تھا اور یہی وہ مقام ہے جہاں رام چندر جی پیدا ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ رام چندر جی کو ہندوؤں میں بھگوان کا نہیں بلکہ بھگوان وشنو کے اوتار کا درجہ حاصل ہے۔ ہندوؤں میں بلند ترین ذات برہمن کی ہوتی ہے تاہم رام چندر جی شتریہ یعنی جنگجو ذات کے تھے جسے ہندوؤں کے نسلی حفظِ مراتب میں دوسرا درجہ حاصل ہے۔
Comments are closed on this story.