اسلام عورت کو خلع کا مکمل حق دیتا ہے، سپریم کورٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے قراردیا ہے کہ اسلام خلع کا حق دیتا ہے جس کی بنیاد پر اگر کوئی مسلمان عورت اپنے شوہر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں کسی وجہ سے نہ رہ سکے تو وہ شادی کے بندھن سے چھٹکارا حاصل کرسکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس سید اظہر رضوی پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف شہری سہیل احمد کی اپیل پرسماعت کی۔
عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستانی شوہر کی اپیل مسترد کردی۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ اسلام میاں بیوی پر ہم آہنگی اور خوشی سے عاری زندگی مسلط نہیں کرتا اور اگر فریقین ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تو علیحدگی کی اجازت دیتا ہے۔
یہ مقدمہ سہیل احمد اور پاکستانی نژاد امریکی شہری ثمرینہ رشید کی شادی کے گرد گھومتا ہے جو اسلامی قانون کے مطابق نیویارک میں 5 ہزار ڈالرز کے عوض رجسٹرڈ ہے۔
تاہم شادی کے نو ماہ کے اندر درخواست گزار سہیل نے مبینہ طور پر اہلیہ کے ساتھ سخت اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا اور پھر پاکستان واپس چلے گئے میاں بیوی اور مدعا علیہ کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث 12 اکتوبر 2019 کو کراچی کی فیملی کورٹ میں خلع کا مقدمہ دائر کیا گیا۔
سہیل احمد نے 17 دسمبر 2019 کو اس بنیاد پردرخواست دائر کی تھی کہ پاکستان کی عدالتوں کو اس کیس کی سماعت کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ شادی امریکا میں شادی ہوئی تھی۔
یہ درخواست فیملی کورٹ نے 27 فروری 2021 کو مسترد کردی تھی جس کے بعد درخواست گزار نے اسے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کیا تھا۔ مصالحتی کارروائی کی ناکامی کے بعد فیملی کورٹ کی جانب سے 10 اپریل 2021 کو خلع کے ذریعے شادی توڑنے کا حکم جاری کرتے ہوئے اسی دن ابتدائی حکم نامہ تیار کیا گیا۔
درخواست گزار نے ہائی کورٹ میں ایک اور آئینی درخواست دائر کی جس میں مقدمہ واپس لینے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست گزار کی جانب سے دائر کی گئی دونوں درخواستوں کو سندھ ہائی کورٹ نے 6 فروری 2023 کو یکجا کرکے فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد قرار دیا کہ پاکستان میں فیملی کورٹس کو اس معاملے کی سماعت کا اختیار حاصل ہے اور ٹرائل کورٹ نے اس سوال کا فیصلہ کرتے ہوئے درست طریقے سے اس سوال کا استعمال کیا ہے کہ کیا پاکستان میں فیملی کورٹس کا دائرہ اختیار ہے جب بیوی پاکستان اور امریکا کی دہری شہریت رکھتی تھی اور مقدمے کے قیام کے وقت بیرون ملک مقیم تھی جبکہ شوہر پاکستان کا قومی اور مستقل رہائشی ہے۔
موجودہ کیس میں اگرچہ مدعا علیہ امریکا میں مقیم تھیں لیکن عام طور پر پاکستان آتی ہیں، کراچی میں تعلیم حاصل کرتی ہیں اور وقتا فوقتا شہر میں اپنی فیملی سے ملاقات بھی کرتی ہیں۔
سات صفحات پر مشتمل حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ خلع کا حق اور طریقہ سورۂ بقرہ کی ایک آیت میں بیان کیا گیا ہے: ”طلاق دو بار ہوتی ہے، اس کے بعد یا تو آپ اسے معقول مدت پر برقرار رکھیں یاچھوڑ دیں۔ اور تم (مردوں) کے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اپنی بیوی کو دی گئے مہر میں سے کچھ بھی (بیویوں سے) واپس لے لو سوائے اس صورت میں جب دونوں فریقین کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود پر عمل نہیں کر سکیں گے (مثال کے طور پر ایک دوسرے کے ساتھ انصاف سے پیش آنا)۔ پھر اگر تم ڈرتے ہو کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود پر عمل نہیں کر پائیں گے تو ان میں سے کسی پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے اگر وہ خلع کے بدلے (مہر یا اس کا کچھ حصہ) واپس کر دے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں سو ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو شخص اللہ کے مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرے گا تو وہی ظالمین میں سے ہے۔“
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ کیس میں فیملی کورٹ کی جانب سے خلع کے ذریعے شادی تحلیل کرنے کا ابتدائی حکم مغربی پاکستان فیملی کورٹس ایکٹ 1964 کی دفعہ 10 (4) کے مطابق ہے۔
ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ خلع کے ابتدائی فرمان کے بعد مدعا علیہ نے امریکا میں دوسری شادی کی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نے پاکستان میں دوسری شادی کرنے کی بھی کوشش کی کیونکہ اس نے ایسا کرنے کی اجازت کے لیے متعلقہ حکام کو متعدد درخواستیں دیں۔ درخواست گزار غیر ضروری طور پر مدعا علیہ کو قانونی چارہ جوئی میں گھسیٹ رہا تھا جبکہ شادی ٹوٹ گئی تھی۔
آخر میں فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ درخواست گزار کسی ایسی کمزوری یا غیر قانونی کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہا جو سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنے پر آمادہ کرسکے۔
Comments are closed on this story.