’کس قانون کے تحت کہیں کہ بوتل واپس لیں اور کوئی دوسرا نشان دیں؟‘
پشاورہائیکورٹ نے شہریارآفریدی، آصف خان، کامران بنگش اور آفتاب عالم کے انتخابی نشانات کیخلاف کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا۔
انتخابی نشانات کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس اعجاز خان نے سماعت کی۔
جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے شہریار آفریدی کے وکیل سے استفسار کیا کہ شہریار کو انتخابی نشان مل گیا تو پھرکیا مسئلہ ہے؟
اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان سےمتعلق قانون کی خلاف ورزی کی۔
جسٹس اعجازخان نے ریمارکس دیے کہ کس قانون کے تحت کہیں کہ بوتل واپس لیں اورکچھ دیں دے؟ اس پر وکیل نے دلیل دی کہ قانون میں سابق پارلیمنٹیرینز کواپنی مرضی کا نشان حاصل کرنےکاحق ہے۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کو ضرور حق ہے لیکن ان کا کوئی درخواست یا بندہ نہیں آیا، یہ کوئی درخواست بتا دیں کہ انہوں نے کوئی نشان مانگاتھا۔ اب تو سب کچھ فائنل ہے، بیلٹ پیپرز پرنٹ ہورہے ہیں۔
وکیل کا کہنا تھا کہ این اے 32 کے امیدوار آصف خان کو ہتھ گاڑی نشان ملا ہے،اسی حلقے میں پی کے 82 پر ایک اور آصف خان نامی امیدوار کو بھی ہتھ گاڑی نشان دیا گیا ہے۔
اس پر جسٹس جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہتھ گاڑی تو پھر بھی تمیز والا نشان ہے۔
شہریار آفریدی کے وکیل نے مزید کہا کہ کامران بنگش کو وائلن کا نشان دیا اسی حلقے سے کسی اور امیدوار کو باجا کا نشان دیا گیا ہے،ووٹرز کو ووٹ استعمال کرتے وقت نشان میں فرق کرنا مشکل ہوگا۔
پشاور ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
Comments are closed on this story.