ارشد شریف سمیت دیگر صحافیوں کیخلاف درج مقدمات کا ریکارڈ 14 فروری تک طلب
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مقتول صحافی ارشد شریف سمیت دیگر صحافیوں سمیع ابراہیم ، عمران ریاض اور معیذ پیرزادہ کے خلاف ملک بھر میں درج مقدمات کا ریکارڈ 14 فروری تک طلب کر لیا۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر بتائیں کہ ایف آئی آرز کا اسٹیٹس کیا ہے؟ کیا ایک ہی ٹوئٹ یا انٹرویو پر اتنے مقدمات درج کیے گئے؟ کسی کے خلاف ایک ہی انٹرویو یا ٹوئٹ پر اتنے مقدمات درج کرنا قانون کے ساتھ مذاق ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقتول صحافی ارشد شریف، صحافیوں سمیع ابراہیم، عمران ریاض خان اور معید پیرزادوں کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔
عدالت نے استفسار کیا ارشد شریف پر کتنے مقدمات تھے ؟ جس پر بیرسٹر شعیب رزاق نے بتایا کہ آخری اطلاع کے مطابق 16 مقدمات تھے جو گوادر اور ملک کے دور دراز علاقوں میں بیٹھے شہریوں کی جانب سے درج کرائے گئے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ایک اینکر یا صحافی انٹرویو دیتا ہے تو اس کی بنیاد پر بہت سے مقامات درج ہو جاتے ہیں، کیا 25 کروڑ عوام نے انٹرویو کے الفاظ سنے تو 25 کروڑ مقدمات درج ہوں گے؟ ایک انٹرویو یا ٹوئٹ پر اس طرح ملک بھر میں ایف آئی آرز کا اندراج مذاق ہے، لوگوں کا کام ہے کہ درخواستیں دے کر پرچے کرائیں مگر کارروائی قانون کے مطابق ہونی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا بھی فیصلہ ہے کہ ایک واقعہ پر ایک سے زائد ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی، کارروائی پہلی ایف آئی آر پر ہی ہو گی، یہ کام تو بھیڑ بکریوں والا ہی ہے ایسے ہی عوام کو ٹریٹ کیا جارہا ہے، ایک ہی انٹرویو پر اتنے مقدمات کیسے درج ہوں گے ؟یہی کرنا تھا تو پہلے شخصی آزادی دینی ہی نہیں تھی، ریاست کو ایسے کام ہی نہیں کرنے چاہئیں کہ اس پر لوگ کمنٹ یا ٹوئٹ کریں اور پھر اس کے ایسے نتائج نکلیں، اگر کوئی غلط کام ہوا ہے تو اس پر وہ پراسیکیوٹ ہونا چاہیئے، جرنلسٹس کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے مگر اس کا پورا طریقہ کار موجود ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ تربت اور پسنی والے ہی صرف باخبر ہیں جنہوں نے پرچے درج کروائے، اسلام آباد والے نہیں ہیں؟ اس کا دوسرا نکتہ بھی ہے کہ سٹیٹ وہاں پروٹیکٹ نہیں کر سکتی۔ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ انڈیا اور اسرائیل فنڈنگ کر رہا ہےیا کوئی کسی سے پیسے لے کر یہاں بیٹھا ہوا ہے۔ ریاست کا کام ہے کہ قانونی کارروائی کرے۔ سٹیٹ نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے، اغوا پر مجرم کو 7 سال قید ہو جاتی ہے، یہاں اسٹیٹ کے ادارے لوگوں کو اغوا کر رہے ہیں مگر کوئی بات ہی نہیں ہے، عدلیہ پر بھی تنقید ہوتی ہے، عدالتوں نے اپنا کام کر کے دکھانا ہے اور یہی سب باتوں کا جواب ہے۔
مزید پڑھیں
سمیع ابراہیم کی گمشدگی: کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنا قبل ازوقت ہوگا، وفاقی پولیس
’کوشش کررہے ہیں عمران ریاض جلد بازیاب ہوجائیں‘، نمائندہ وزارت دفاع کا عدالت میں بیان
Comments are closed on this story.