Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

سپریم جوڈیشل کونسل کا جسٹس مظاہر نقوی کیخلاف کارروائی ختم نہ کرنے کا فیصلہ

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو آگاہی نوٹس جاری کردیا
اپ ڈیٹ 11 جنوری 2024 10:59pm
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل
فوٹو۔۔۔۔۔۔۔۔ فائل

سپریم جوڈیشل کونسل نے بطور جج سپریم کورٹ مستعفی ہونے والے جسٹس (ر) مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کارروائی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا، سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو آگاہی نوٹس جاری کردیا، جس کے مطابق مظاہر نقوی چاہیں تو کونسل میں کل پیش ہو کر اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایات کے معاملے پر سپریم جوڈیشل کونسل کا اہم اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں منعقد ہوا، جس میں کونسل کی کارروائی پر معترض ممبر جسٹس اعجازالاحسن شریک نہیں ہوئے۔

جسٹس سردار طارق مسعود سمیت چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم افغان اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی بھی شریک ہوئے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کوئی وکیل سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں پیش نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس مظاہر کا استعفی پڑھا

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مظاہر علی نقوی کا استعفی پڑھنے کی ہدایت کی، جس پر اٹارنی جنرل نے جسٹس مظاہر نقوی کا استعفی پڑھ کر سنایا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج کے استعفے سے متعلق آئین کیا کہتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے ججز تقرری اوراستعفی سے متعلق قانون پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن کونسل کی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے، اٹارنی جنرل ہمیں بتائیں کہ استعفی کے بعد کارروائی آگے چلائیں یا ختم ہوجائے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگرکوئی جج استعفیٰ دے جائے تو کونسل کے رولز کے مطابق اس کے خلاف مزید کارروائی نہیں ہوسکتی۔

سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن جسٹس امیر بھٹی کی جانب سے آرٹیکل 209(3) کی نشاندہی کی گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کے مطابق کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کے بعد سینئر کونسل کا رکن ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منصورعلی شاہ کی دستیابی دیکھنا ہوگی، اگر جسٹس منصورعلی شاہ دستیاب ہوئے تو آج ہی کارروائی آگے بڑھائیں گے۔

جس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔ رجسٹرار کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ ساڑھے 3 بجے تک دستیاب ہوں گے، سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ساڑھے 3 بجے ہوگا۔

وقفے کے بعد دوبارہ سماعت کا آغاز

سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس منصورعلی شاہ بطور ممبر کونسل کی کارروائی میں شامل ہوگئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اب ہاؤس مکمل ہوگیا، اٹارنی جنرل صاحب معاونت کریں کیا معاملہ ختم ہوگیا، یہ استعفیٰ کونسل کارروائی کے آغاز میں نہیں دیا گیا، کونسل کی جانب سے شوکاز جاری کرنے کے بعد استعفیٰ دیا گیا، ممکن ہے درخواستیں غلط ہوں اور جج نے دباؤ پراستعفیٰ دیا ہوں، جج کی جانب سے دباؤ پر استعفیٰ دینے سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا،یقینی طور پر جج کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی تو ختم ہوگئی، استعفیٰ دینا جج کا ذاتی فیصلہ ہے، ہمارے سامنے غیر معمولی صورتحال ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگرکوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کرکےاستعفی دےجائے توکیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہوگا؟ اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟ کیا آئین کی دستاویزصرف ججزیا بیوروکریسی کے لیے ہے؟ آئین پاکستان عوام کے لیے ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی استعفیٰ دے چکے، استعفے کے بعد اب 2 باتوں کو دیکھا جاسکتا ہے، ایک بات یہ ہوسکتی کہ جج کے خلاف جھوٹے الزامات تھے اور دباؤ میں آکر استفعی دیا، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الزامات درست ہیں اور جج نے کارروائی سے بچنے کے لیے استعفی دیا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کا استعفیٰ ان کا ذاتی فعل ہے، جسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی نے استعفیٰ شروع میں نہیں دیا شوکاز نوٹس کے بعد دیا، اٹارنی جنرل صاحب بتائیں کہ شوکاز نوٹس کے بعداستعفیٰ دیا جائے تو کونسل کی کارروائی کا کیا ہوگا، یہ بھی بتایا جائے کہ اگر پبلک آفس ہولڈر عہدے کا غلط استعمال کرے تو کیا کارروائی ہوگی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جج مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا ہو تو استعفے کے بعد کیا صورتحال ہوگی، جج کا استعفیٰ آخری مرحلے پر دوسرے شوکاز نوٹس کے بعد آیا، جج کی برطرفی کا سوال اب غیرمتعلقہ ہوچکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدرمملکت کوجج کی برطرفی کے لیے لکھتی۔

چیئرمین جوڈیشل کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس صورتحال پر آپ کی کیا رائے ہے۔

اٹارنی جنرل نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آفیہ شہر بانو نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایت دائر کی تھی، آفیہ شہر بانو کیس میں عدالتی ریمارکس تھے کہ جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد احتساب ہوسکتا ہے، آفیہ شہر بانو کیس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 209 کے مطابق جج کی ریٹائرمنٹ کے بعد کارروائی نہیں ہوسکتی، آفیہ شہر بانو کیس میں بینچ 2 رکنی تھا مگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد آرٹیکل 184/3 کے مقدمات 3 رکنی بینچ سنے گا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پورا پاکستان ہماری طرف دیکھ رہا ہے، ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ایک جج ادارے کی ساکھ خراب کرکے استعفیٰ دے کر بغیر احتساب چلا جائے، کونسل نے اب کوئی نہ کوئی رائے تو دینی ہے، اگر کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کرکے استعفیٰ دے جائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہوگا؟ اپنی تباہ شدہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟ کیا آئین کی دستاویز صرف ججز یا بیورو کریسی کے لیے ہے؟ آئین پاکستان عوام کے لیے ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے، کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کا کاروائی پراثر کیا ہوگا، جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسجر 2005 میں درج ہے، سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا جس میں کہا گیا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی، کیس میں سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل بھیجی گئیں۔

جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ کونسل میں اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی، ان کے خلاف آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔

اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب ہوچکی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کررہی ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی، اگر کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخری دن بتا دے کہ برطرف کرنے لگے اور وہ استعفی دے جائے توکیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفیٰ دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جو فیصلہ جون 2023 میں آیاوہ دو رکنی بینچ کا تھا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بینچ فیصلہ نہیں دے سکتا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ جج کے استعفے کے بعد بہت سے اہم معاملات سامنے آئے جن کاجائزہ لینا ضروری ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کومزید کاروائی جاری رکھنا ہوگی۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی ختم نہیں کی جائے گی، سپریم جوڈیشل کونسل مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر کارروائی جاری رکھے گی۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کو استعفے کے باوجود بھی حق دفاع بھی دے دیا گیا، وہ کل خود یا وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتے ہیں۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو کارروائی میں شامل ہونے کے لیے آگاہی نوٹس جاری کر دیا جبکہ جسٹس مظاہر نقوی کے وکیل خواجہ حارث کو بھی نوٹس جاری کیا گیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ جج اور سپریم کورٹ کی ساکھ کا سوال ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ مظاہر علی اکبر نقوی کے وکلاء نے وقت مانگا تو شکایت گزاروں کو سنا جائے گا۔

بعدازاں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایات کا سامنا کرنے والے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی گزشتہ روز استعفی دے چکے ہیں، جسے صدر مملکت نے وزیرِ اعظم کے مشورے پر آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت آج منظور کرلیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوئے جہاں چیف جسٹس کی ہدایت پر انہوں نے جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے استعفے کا متن پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ استعفے سے متعلق آئین کا آرٹیکل 179 کیا کہتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے مذکورہ آرٹیکل بھی پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اٹارنی جنرل کو آئین کے آرٹیکل 209 کو بھی جسٹس مظاہر اکبر نقوی کے پیش کردہ استعفے کے تناظر میں پڑھنے کا کہا، انہوں نے بتایا کہ گر کوئی جج استعفیٰ دے جائے تو کونسل کے رولز کے مطابق اسکے خلاف مزید کارروائی نہیں ہوسکتی۔

کونسل کے رکن جسٹس امیر بھٹی کی جانب سے آرٹیکل 209(3) کی نشاندہی پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ جسٹس اعجاز الحسن اجلاس میں بیٹھنا نہیں چاہتے، اٹاری جنرل کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق کوئی رکن دستیاب نہ ہو تو اس کے بعد سینئر کونسل کا رکن ہوگا۔ جسٹس اعجازالاحسن کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ ہوں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے شامل ہونے کے بعد کونسل اپنی کارروائی آگے بڑھائے گی، وقفہ کے بعد بتاتے ہیں کہ جسٹس اعجاز الحسن کی جگہ جسٹس منصور علی شاہ کی دستیابی دیکھ کر اجلاس شروع کریں گے۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی اجلاس میں مختصر وقفہ کردیا گیا ہے، عدالتی عملے کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کی کارروائی میں وقفہ کردیا گیا ہے، رجسٹرار جزیلہ اسلم کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کا دوبارہ آغاز 3:30 بجے کرے گی۔

واضح رہے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے گزشتہ روز استعفیٰ دے دیا تھا۔ اور اپنا استعفیٰ صدر مملکت عارف علوی کو بھجوایا تھا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس مظاہر نقوی کا استعفیٰ منظور کرلیا تھا۔ صدر مملکت نے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ وزیرِ اعظم کی ایڈوائس پر آئین کے آرٹیکل 179 کے تحت منظور کیا تھا۔

اسلام آباد

Justice Qazi Faez Isa

supreme judicial council

justice mazahir ali akbar naqvi

Chief Justice Qazi Faez Isa