خواجہ آصف نے فیض آباد دھرنا کمیشن کو ادھورا بیان ریکارڈ کرا دیا، اوپن کارروائی کا مطالبہ
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے فیض آباد دھرنا انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کروا دیا۔
خواجہ آصف بطور سابق وفاقی وزیر دفاع دھرنا کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔
اس حوالے سے خواجہ آصف نے ”ایکس“ پر جاری اپنے بیان میں کہا کہ ’آج فیض آباد دھرنا کمیشن میں پیش ہوا، بیان نامکمل رہا، انشاءاللہ جلد مکمل ہو جائے گا۔‘
خواجہ آصف نے لکھا کہ ’میری ناچیز ر ائے ہے کہ کمیشن کی کاروائی اوپن ہو اور میڈیا کوریج ہو۔ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ملک کے ساتھ 75سال کیا کھلواڑ ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’وطن عزیز میں جتنے کمیشن بنے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ان کے نتائج بھی عوام کے سامنے نہیں آئے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے گناہوں کا سامنا کریں اور کفارہ ادا کریں‘۔
اپنے ایک اور ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ ’اگر 2014 والا عمران خان کا دھرنا نہ کروایا جاتا اور اس کے بعد فیض آباد دھرنا کا انتطام نہ کیا جاتا تو مجھے یقین ہے 9 مئی کی ٹریجڈی (سانحہ) کبھی نہ ہوتی‘۔
خواجہ آصف نے لکھا کہ ’ریاست مخالف قوتوں کی اتنی سرپرستی کی گئی کہ آخر ان قوتوں نے ریاست کے گریبان پر ہاتھ ڈالا اور ریاست کی اساس کو چیلنج کر دیا۔‘
تاہم، شہباز شریف تاحال کمیشن کے سامنے پیش نہ ہو سکے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف اپنے وکیل کے زریعے بیان جمع کروائیں گے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر فیض آباد دھرنا کی تحقیقات کے لیے قائم سابق آئی جی اختر علی شاہ کی سربراہی میں کمیشن کی تحقیقات جاری ہے، وزارت قانون میں کمیشن اپنی کارروائی مکمل کر رہا ہے۔
شہبازشریف کو بطور وزیراعلی پنجاب کمیشن نے بلا رکھا تھا۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر وزارت قانون کے نوٹیفکیشن پر کمیشن تشکیل پایا تھا، کمیشن نے ابھی تک متعدد افراد کے بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔
فیض آباد دھرنا کمیشن نے، سابق آئی ایس آئی چیف فیض حمید، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق سیکرٹری فواد حسن فواد سمیت بیورو کریسی اور پولیس افسروں کے بیان بھی ریکارڈ کیے ہیں۔
فیض آباد دھرنا
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت ٹی ایل پی نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا تھا۔
حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا تھا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
اس دھرنے کے نتیجے میں وفاقی دارالحکومت میں نظام زندگی متاثر ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑاتھا۔
27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فیض آباد دھرنے کا معاملہ زیر بحث آنے پر اس پر نوٹس لیا تھا اور متعلقہ اداروں سے جواب مانگا تھا۔
Comments are closed on this story.