اداروں کو عدالتوں پر یقین نہیں، وقت آئے گا ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی ہوگی، جسٹس محسن اختر کیانی
اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ کام اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ان کو سنبھال نہیں سکتے، کیا کبھی آئی ایس آئی نے ان پر مقدمہ درج کرایا ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور بتایا کہ لاپتہ طلباء کی تعداد 16 رہ گئی ہے باقی بازیاب ہو گئے ہیں۔
کجبکہ ایمان مزاری نے کہا کہ کراس چینک سے معلوم ہوا ہے لاپتہ طلبہ کی تعداد 12 ہے۔
ایمان مزاری نے کہا کہ عدالت نے وزیر داخلہ کو متاثرین سے ملاقات کا حکم دیا تھا۔
ایمان مزاری نے سرفراز بگٹی کے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ناروا سلوک کی شکایت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سرفراز بگٹی نے خواتین کو کہا اگر آپ کے پیارے کو مارا گیا تو آپ کو بتا دیں گے۔
جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریاست کو خود چیک اینڈ بیلنس کرنا ہوگا، یہ کام اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ ان کو سنبھال نہیں سکتے، کیا کبھی آئی ایس آئی نے ان پر مقدمہ درج کرایا ہے؟ آپ ٹرائل کریں لوگوں کو عدالتوں میں پیش کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بلوچستان کے لوگ وزارتیں بھی لیتے ہیں مگر اپنوں کو تحفظ نہیں دے سکتے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ آپ بلوچستان میں عدالتوں میں فعال کریں۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ چور اور ڈاکو دنیا کے ہر کونے میں موجود ہیں، دیگر ممالک ان سارے معاملات کو نمٹا لیتے ہیں، مغربی ممالک میں تو بڑے قاتل کی بھی ضمانت ہوتی ہے، مگر یہاں ہم ایسا نہیں کرتے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ یہ سوچیں جن کا پیارا لاپتہ ہوتا ہے اس کے بچوں پر کیا گزرتی ہوگی۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے اسلام آباد کورٹ کا فیصلہ پڑھا گیا۔
اٹرانی جنرل نے بتایا کہ اب تک 68 افراد کو بازیاب کرایا گیا ہے، بازیاب افراد کی لسٹ میڈم ایمان مزاری کے ساتھ شئیر کی گئی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آخری سماعت پر انہوں نے 28 افراد کی بازیابی کرنے کا کہا تھا۔
جس پر ایمان مزاری نے کہا کہ اب تک 56 افراد کو بازیاب کرلیا گیا ہے جبکہ 12 تاحال لاپتہ ہیں، عدالت نے وزارت داخلہ کو متاثرہ لوگوں کے لواحقین سے ملاقات کا کہا تھا، وزارت داخلہ کی متاثرہ افراد کے خاندانوں کے ساتھ ملاقات افسوس ناک رہی۔
ایمان مزاری نے کہا کہ اٹارنی جنرل آفس یا کسی اور آفس سے اب تک کوئی خاص پروگریس نہیں ہے۔
جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہمارے مطابق 15 تاحال لاپتہ ہیں جبکہ ان کے مطابق 12 لاپتہ ہیں۔
ایمان مزاری نے کہا کہ درخواست گزار فیروز بلوچ کے حوالے سے کہا گیا کہ ان کو ریلیز کردیا گیا، آج صبح فیروز بلوچ کے فیملی سے بات ہوئی وہ تاحال لاپتا ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ بتائیں کہ ان لوگوں کو ریلیز کردیا یا گھر پہنچایا؟
عدالت نے وفاقی حکومت کے انڈر ٹیکنگ نہ دینے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت ہی جبری گمشدگیوں میں ملوث ہیں؟ کیا ہم بھی وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ یا وزارت دفاع سے بیان حلفی لیں؟ وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ و دیگر بڑے دفاتر بیان حلفی دیں کہ آئندہ کوئی لاپتہ نہیں ہوگا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ریاست کے اداروں کو قانون کی پاسداری پر یقین کرنا چاہیے، ریاستی ادارے عدالتوں پر یقین نہیں کرتے اسی لیے لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ہمارے سامنے پولیس کا ادارہ ریاست کا فرنٹ فیس ہے، جو لوگ اغوا ہوئے ہیں وہ 365 کے اندر اغوا ہوئے ہیں، آج آپ کچھ نہ کریں مگر وقت آئے گا کہ ریاستی اداروں کے خلاف کارروائی ہوگی، ڈاکوؤں، چوروں، قاتلوں اور دہشت گردوں تک کے ٹرائل عدالتوں میں چل رہے ہیں، اگر بلوچستان میں ریاست مخالف عناصر کوئی ہے بھی تو ان کا ٹرائل ہونا چاہیے، ملک بھر میں انسدادِ دہشت گردی کے عدالتیں موجود ہیں۔
عدالت نے کہا کہ بلوچستان کے کچھ وڈیرے سردار وزارتیں تو لیتے ہیں مگر اپنے لوگوں کا کام نہیں کرسکتے۔
عدالت نے کہا کہ ایمان مزاری دہشت گردوں کو کلین چٹ کا کہہ رہی ہیں یا کہیں گی، ریاست کا سپاہی مرتا ہے تو آپ ان کے لیے شہداء پیکج کا اعلان کرتے ہیں، جو لوگ ریاست کے لیے قربانی دیتے ہیں وہ پولیس ہو، فوج ہو یا کوئی بھی شہری ہو، حق سب کا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اگر تھانے پر چھاپہ مارے اور کوئی بندہ بازیاب ہو تو پولیس والے کی تو نوکری چلی جاتی ہے ۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ میرے سامنے کوئی مسنگ بلوچ کھڑا ہوکر نہیں آیا جس سے میں سوال کر سکوں، جو لوگ بازیاب ہوئے پتہ نہیں وہ ٹھیک ہیں بھی یا نہیں، ان کی ہیلتھ کنڈیشن کیا ہوگی، ان بچے بچیوں کا کوئی قصور نہیں، یہ پاکستانی ہیں، ہم نے ان کو دیکھنا ہیں کیونکہ ہمارے سامنے کوئی لاپتہ شخص کھڑا نہیں، نو سال میں میرے سامنے ایک بازیاب شخص آیا تھا جس نے کہا کہ سی ٹی ڈی نے مجھے اٹھایا تھا، ان معاملات میں وزیراعظم، وزارت داخلہ، وزارت دفاع ہی جوابدہ ہے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ میں آپ نے بیان حلفی جمع کرایا ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بیانی حلفی ابھی جمع نہیں ہوا مگر جلد جمع کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ وزارتوں کے لوگ موجود ہیں یہ چیزیں پاکستان کی بہت بڑی بدنامی بنی ہیں، ہم معاشی مسائل کا شکار ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی کررہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ جن 12 لاپتہ افراد کی لسٹ اٹارنی جنرل کو دیں وہ آپ نے دیکھنا ہے۔
عدالت نے سمی دین بلوچ سے استفسار کیا کہ آپ نے کچھ کہنا ہے؟
جس پر سمی دین بلوچ نے کہا کہ عدالتی حکم پر وزیراعظم نے فواد حسن فواد کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی، کمیشن نے بتایا کہ جو لوگ دس سال سے زائد عرصہ سے لاپتہ ہیں ان کا کچھ نہیں بتاسکتے۔
جس پر عدالت نے کہا کہ ایک بات پر یقین کریں کہ جو لوگ دس سال سے لاپتا ہوں یا پندرہ سال سے ان کی معلومات حکومت فراہم کرے گی، اگرکوئی زندہ ہے یا مرے ہیں حکومت آپ کو معلومات فراہم کریں گی۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ ہمارے والدین مرتے وقت بھی اپنے لاپتہ بچوں کو یاد کرتے ہیں، ہم اس چیز سے نکلنا چاہتے ہیں، ابھی ایک شخص نو سال بعد بازیاب ہوا مگر ان کے گھر والوں سے کہا گیا کہ کسی سے بات نہیں کرنی، ہمیں وفاقی وزرا نے بھی کہا تھا کہ اگر آپ کے لاپتہ افراد سے متعلق بتائیں گے تو آپ شور نہیں کریں گے۔
عدالت نے کہا کہ پہلے لاپتہ افراد کو بازیاب ہونے دیں پھر جس ادارے نے آپ سے بیان حلفی لی ہے اسی کا دیکھا جائے گا۔
عدالت نے تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او کو دونوں مظاہرین کے شرکاء کو سیکورٹی انتظامات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 13 فروری تک کے لئے ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.