چینی بینک نے پاکستان کیلئے قرض آئی پی پیز واجبات ادائیگی سے مشروط کردیا
چین کے دو کمرشل بینکوں نے پاکستان کیلئے 600 ملین ڈالر کے کمرشل قرض کو چینی پاور پلانٹس کے واجبات ادائیگی سے مشروط کردیا، تاہم حکومت نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
انگریزی معاصر کی ویب سائیٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان، انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ (آئی سی بی سی) اور بینک آف چائنہ کے ساتھ مجموعی طور پر 600 ملین ڈالر قرض کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ دونوں بینکوں سے 300 ، 300 ملین ڈالر کی فنانسنگ کے لئے رابطہ کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکام کو امید تھی کہ انہیں دسمبر میں قرض مل جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں کمرشل بینکوں نے اپنے قرضوں کو چینی انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو واجب الادا ادائیگی سے منسلک کیا ہے۔ چینی بینکوں نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ واجب الادا رقم کی فہرست فراہم کریں گے اور 600 ملین ڈالر ان کے قرضوں کی ادائیگی سے مشروط ہوں گے۔
انگریزی معاصر کی ویب سائیٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ سرکاری ذرائع نے اسے بتایا کہ نئی شرائط کی وجہ سے 600 ملین ڈالر کے چینی تجارتی قرضوں کے حصول کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ وزارت خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ حکومت چین کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی ، جو قرض دینے کے طریقہ کار کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے غیر معمولی تھیں۔
رپورٹ میں حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ آئی پی پی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے چین کی شرط بعد میں سامنے آئی کیونکہ دونوں فریقین پہلے ہی قرضوں کی شرائط پر متفق ہو چکے تھے۔ ماضی کے برعکس اس بار بیجنگ نے 300 ملین ڈالر چینی آر ایم بی کے برابر دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ بینک آف چائنا نے بیرون ملک سے قرض کی تقسیم کی پیشکش کی تھی۔ آئی سی بی سی نے پاکستان کے اندر سے فنڈز تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ نئی کمرشل سہولت پر شرح سود 6 فیصد پر اتفاق کیا گیا تھا لیکن آئی سی بی سی ود ہولڈنگ ٹیکس کے اثرات کو پورا کرنے کے لیے اضافی 2.5 فیصد وصول کرنا چاہتا تھا۔
رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے مزید بتایا گیا کہ وزارت خزانہ کا موقف ہے کہ چینی کمرشل قرضوں کو کسی بھی شرط سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ایسی شرائط صرف پروگرام کے قرضوں کی صورت میں قابل قبول ہیں۔ تجارتی قرضوں کے لئے سود کی شرح پروگرام کے قرضوں کے مقابلے میں نسبتا زیادہ ہے۔
حکومت کے پاس چینی آئی پی پیز کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے بجٹ مختص نہیں ہے اور وہ آئی ایم ایف کی جانب سے عائد کردہ شرائط کی وجہ سے ضمنی گرانٹ جاری نہیں کر سکتی۔ یہ خدشات بھی تھے کہ وفاقی کابینہ مشروط غیر ملکی تجارتی قرضے کی منظوری نہیں دے سکتی۔
شرائط کے دعوے کی تردید
انگریزی معاصر کی ویب سائیٹ پر یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ جب چینی حکام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چینی فریق پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کام کو فوری طور پر مکمل کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ چینی کمرشل بینکوں نے پاکستان کی جانب سے چینی آئی پی پیز کے قرضوں کی ادائیگی پر منحصر قرضوں کی فراہمی کی شرط عائد کی ہے۔
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں چین نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے میں مدد کی ہے، لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر بھی مایوسی دیکھی گئی۔ یہ پاور پلانٹس سی پیک فریم ورک کے تحت قائم کیے گئے تھے۔
سی پیک کے انرجی فریم ورک معاہدے کے تحت پاکستان نے ایک گردشی فنڈ قائم کرنے اور بجلی کی ادائیگیوں کے لیے پیدا ہونے والے انوائسز کے 21 فیصد کے مساوی رقم جمع کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ 21 فیصد وہ رقم ہے جو پاکستانی حکام جمع کرنے میں ناکام رہے، جس سے بجلی کے شعبے کے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ یہ انتظام چینی فرموں کو گردشی قرضوں سے بچانے کے لئے کیا گیا تھا۔
لیکن فنڈ قائم کرنے کے بجائے پاکستان نے اکتوبر 2022 میں اسٹیٹ بینک میں پاکستان انرجی ریوالورنگ اکاؤنٹ (پی ای آر اے) کھولا جس میں سالانہ 48 ارب روپے مختص کیے گئے تھے اور اس شرط کے ساتھ کہ زیادہ سے زیادہ 4 ارب روپے ماہانہ نکالے جائیں گے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ چینی آئی پی پیز کا قرضہ اب 400 ارب روپے کے لگ بھگ ہے۔
خیال رہے کہ چین پاکستان کے بیرونی شعبے کو مستحکم کرنے میں مدد کے لئے سیف ڈپازٹس، رعایتی قرضوں اور تجارتی قرضے فراہم کر رہا ہے۔ گزشتہ سال جون میں چین نے 1.3 ارب ڈالر کی ادائیگی کو قبل از وقت ایڈجسٹ کرکے پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کے انتہائی کم ذخائر میں مزید کمی سے بچنے میں مدد کی تھی۔
Comments are closed on this story.