بحیرہ احمر میں سلامتی کا مسئلہ، Maersk نے بھی جہاز رانی روک دی
دنیا کی دوسری بڑی شپنگ فرم Maersk نے بحیرہ احمر میں جہاز رانی ترک کردی ہے۔ یہ اقدام یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کی طرف سے بحیرہ احمر سے گزرنے والے تیل بردار اور مال بردار جہازوں پر بڑھتے ہوئے حملوں کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ حوثیی ملیشیا نے اتوار کو بحیرہ احمر میں میئرسک کے ایک جہاز کو نشانہ بنایا تھا۔
میئرسک سے پہلے دوسری بہت سی شپنگ فرمز بھی اپنے کنٹینر شپ بحیرہ احمر سے نہ گزارنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔ برتش پٹرولیم نے بھی بحیرہ احمر کے بجائے بعض افریقی روٹس اختیار کیے ہیں۔
بحیرہ احمر سے اپنے جہاز نہ گزارنے کے شپنگ فرمز کے فیصلے سے عالمی منڈی میں خام تیل اور دیگر مصنوعات کے نرخ بلند ہوسکتے ہیں۔ کورونا کے ہاتھوں معاشی تباہی کا سامنا کرنے کے بعد بحالی کی راہ پر گامزن معیشتوں کے لیے یہ صورتِ حال پریشان کن شکل اختیار کر رہی ہے۔
امریکہ نے اتحادیوں سے مل کر 12 سے بھی زائد ممالک کی فورس تیار کی ہے جو حوثی ملیشیا کے حملوں کو ناکام بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔ اس فورس کے قیام کا بنیادی مقصد بے خطر تجارتی جہاز رانی ممکن بنانا ہے۔
امریکہ نے حوثی ملیشیا کے متعدد حالیہ حملے ناکام بنائے ہیں۔ جوابی کارروائیوں کے باوجود حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں کو نشانہ بنانے کا عمل تیز کردیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ حملے غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر حماس سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کیے جارہے ہیں۔
بحیرہ احمر میں سلامتی کا مسئلہ پریشان کن حد تک شددت اختیار کرچکا ہے۔ اگر اس گزر گاہ سے تیل بردار جہازوں کا سفر مکمل طور پر روک دیا گیا تو عالمی سطح پر خام تیل کا بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
امریکہ اور اس کے ہم خیال ممالک پر مبنی فورس کی تعیناتی کے باوجود حوثی ملیشیا کے حملے جاری ہیں۔ اس فورس کی اب تک کی کارکردگی شپنگ فرمز کا اعتماد بحال کرنے میں ناکم رہی ہے۔
Comments are closed on this story.