تاحیات نااہلی کیس کی سماعت کے چھ نکات
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہ میں ہونے والی سماعت سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی، اور اس سماعت میں ملک کے قانون، آئین اور سیاست کے حوالے سے مختلف سوالات اٹھائے گئے، تاہم گھنٹوں جاری رہنے والی اس پوری کارروائی کو سمجھنا مشکل ہے۔
آج نیوز نے اپنے قارئین کے لئے آج کی سماعت کا مختصر خلاصہ بنایا ہے، جو درجہ ذیل ہے۔
آج کی سماعت کا سیاق و سباق
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور جہانگیر ترین کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اب وہ 8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
جون 2023 میں پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظور کرتے ہوئے نااہلی کی مدت کو کم کرکے پانچ سال کردیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کے بعد نواز شریف اور دیگر سیاست دانوں (جن پر تاحیات نااہلی عائد کی گئی تھی) کو عام انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت مل گئی ہے۔
لیکن دوسری جانب تحریک انصاف کا یہ دعویٰ ہے کہ 62 ون ایف کے تحت ان کی نااہلی اب بھی برقرار ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے اس سوال پر بحث کی۔
سپریم کورٹ کو 13 جنوری سے پہلے اس سوال کو حل کرنے کی ضرورت ہے جب انتخابی امیدواروں کی حتمی فہرستیں شائع کی جائیں گی۔
سماعت کے اہم نکات
آج سپریم کورٹ نے مندرجہ ذیل دلائل سنے
تاحیات پابندی کے حق میں عدالتی فیصلے خاص طور پر سمیع اللہ بلوچ کا فیصلہ اب بھی موجود ہے لیکن جب تک ان فیصلوں پر نظر ثانی نہیں کی جاتی، 62 (1) (ایف) کے تحت نااہل قرار دیے جانے والے سیاست دان اس عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑ سکتے۔
یہ درست ہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کے تحت نااہل قرار دیے جانے والے افراد کی مدت پانچ سال تک محدود ہے لیکن عدالتی فیصلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
1973 میں منظور ہونے والے آئین میں تاحیات نااہلی شامل نہیں تھی، فوجی آمر ضیاء الحق نے 1985 میں صدارتی حکم نامے کا استعمال کرتے ہوئے آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 شامل کیے، اور انہوں نے مارشل لا لگا کر آئین کی خلاف ورزی کی اور پھر دوسروں کے لیے معیار مقرر کیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر قائد اعظم محمد علی جناح حیات ہوتے تو وہ وہ بھی اہلیت کے معیار پر پورا نہ اتر سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صادق و امین کا لقب صرف اور صرف حضرت محمد ﷺ کے لیے مخصوص ہے، صادق اور امین کے الفاظ کوئی مسلمان اپنے لئے بولنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
Comments are closed on this story.