کیا مصنوعی ذہانت وکیلوں کو بیروزگار کر دے گی، امریکی سپریم کورٹ نے رپورٹ تیار کرلی
امریکہ کی سپریم کورٹ نے مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال کے نتیجے میں دوسروں کے ساتھ ساتھ وکلا کے بے روزگار ہوجانے کے خدشے کا بھی نوٹس لے لیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکہ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے سالانہ جائزے پر مشتمل رپورٹ میں کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت امریکہ میں قانونی امور کے شعبے کے لیے بھی ملی جلی نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت سے وکلا اور ججوں کا طریقِ کار بھی متاثر ہو رہا ہے اس لیے غیر معمولی احتیاط اور انکسار لازم ہے۔
13 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں چیف جسٹس جان رابرٹس نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے سائلین کو انصاف فراہم کرنا بہت حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر چھان بین اور تحقیق بھی آسان ہوگئی ہے۔ یہ انقلابی نوعیت کی تبدیلی ہے۔
امریکی چیف جسٹس نے ساتھ ہی ساتھ خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال مشکلات اور پیچیدگیاں بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اسے زیادہ بروئے کار لانے کی صورت میں انسانی وسائل کی طلب گھٹ سکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری بڑھے گی۔ ساتھ ہی ساتھ پرائیویسی متاثر ہونے کا بھی خدشہ برقرار ہے۔
جان رابرٹس نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا کہ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں جج کا کردار ابھی مدت تک انسان ہی ادا کرتے رہیں گے تاہم ٹرائل لیول پر اچھا خاصا جیوڈیشل ورک مصنوعی ذہانت کی مدد سے انجام دیا جاتا رہے گا۔
امریکی چیف جسٹس کے یہ ریمارکس ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب امریکہ میں نچلی سطح کی عدالتیں یہ طے کرنے میں ناکامی سے دوچار ہیں کہ اس نئی ٹیکنالوجی سے کیسے نمٹیں جو بار کے امتحان میں کامیاب ہونے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہی ٹیکنالوجی بہت سا مصنوعی مواد بھی تیار کرسکتی ہے۔
جان رابرٹس نے یہ بات زور دے کر کہی کہ مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لانے کے معاملے میں غیر معمولی احتیاط برتی جائے۔
امریکی چیف جسٹس نے بتایا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے وکلا کو عدالتی کارروائی کے دوران گمراہ کیا گیا۔
امریکہ کی ایک اپیل کورٹ نے گزشتہ ماہ اس وقت سرخیوں میں جگہ بنائی تھی جب اس نے مصنوعی ذہانت کو ریگیولیٹ کرنے سے متعلق پہلی تجویز پیش کی تھی۔
Comments are closed on this story.