Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

دبئی میں واک ان انٹرویو ملازمتیں: ویزا پابندیوں کا شکار پاکستانی کیسے فائدہ اٹھائیں

دبئی میں کمپنیاں واک ان انٹرویوز کو ترجیح دینے لگیں
اپ ڈیٹ 29 دسمبر 2023 11:55pm
فوٹو ــ روئٹرز / فائل
فوٹو ــ روئٹرز / فائل

پاکستان میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے نوجوانوں کی خواہش ہے کہ بیرون ملک ملازمت تلاش کی جائے۔ دبئی میں ان دنوں پرُکشش ملازمتیں آفر کی جارہی ہیں، تاہم پاکستانیوں کو ویزا سمیت کئی طرح کی دشواری کا سامنا رہتا ہے تاہم ان مسائل کا حل ممکن ہے۔

دبئی کی جاب مارکیٹ حال ہی میں واک ان انٹرویوز پر بہت زیادہ انحصار کر رہی ہے لیکن بہت سے پاکستانیوں کے لئے اس طرح کے امید افزا ملازمت کے مواقع تلاش کرنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ متعدد پاکستانی علاقوں میں ویزا پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

واک ان انٹرویو میں کوئی بھی ضرورت مند اپنے من پسند شعبے کا انتخاب کرکے انٹرویو دے سکتا ہے۔ جب نئے ملازمین کی خدمات حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو تھرڈ پارٹی کمپنیوں کی طرف سے امیدواروں کا جائزہ لینے کے لئے انٹرویو کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ آئی بیکس کی طرح پاکستان کی معروف کمپنیاں بھی اس پر عمل پیرا ہیں۔

بھرتی کرنے والے مینیجر لنکڈ ان یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر واک ان کے بارے میں اپ ڈیٹس پوسٹ کرتے ہیں۔ امیدواروں کیلئے مطلوبہ تاریخ اور وقت پر پہنچنا ضرورت ہوتا ہے۔

یاد رہے کہ دبئی ہنر مند افراد کے لئے سب سے عام مقامات میں سے ایک رہا ہے، خلیجی شہر میں پراپرٹی کے عروج نے ماضی میں جنوبی ایشیائی ممالک کے بہت سے مزدوروں کو اپنی طرف راغب کیا۔

اگرچہ تعمیراتی کارکنوں کے لئے مواقع کم ہو رہے ہیں ، لیکن پاکستانیوں کی دلچسپی متحدہ عرب امارات جانے میں ہی ہے، جس کا ثبوت مشرق وسطی سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر کی رقم ہے، لیکن اب تکنیکی مہارت رکھنے والے لوگ بھی وہاں منتقل ہو رہے ہیں۔

دبئی میں قائم کمپنیاں واک ان انٹرویوز کو کیوں ترجیح دیتی ہیں

ٹیلی پورٹ مین پاور کنسلٹنٹ کے ہیڈ آف ایچ آر اینڈ آپریشن شہزاد عزیز نے آج نیوز کو بتایا کہ “واک ان انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ امیدوار اس کام کے لیے تیار ہے یا نہیں۔

منیجرز کا خیال ہے کہ اگر کوئی پاکستانی اپنے پاسپورٹ پر ویزا کی مہر لگوانے کے بعد دبئی کا ٹکٹ خریدتا ہے تو وہ واک ان ایونٹ میں شرکت کرتا ہے تو وہ نوکری کے لیے انتہائی اہم ہوگا۔

کیوں نہ عالمی رابطے کے اس دور میں ورچوئل انٹرویو منعقد کیے جائیں، آپ پوچھ سکتے ہیں۔

شہزاد عزیز نے کہا کہ ان کی کمپنی ورچوئل سیشن منعقد کرتی ہے جہاں بھرتی کرنے والے ممکنہ امیدواروں کو ملازمت کی تفصیلات کی وضاحت کرتے ہیں۔ “زیادہ تر امیدوار انٹرویو کیلئے حاضر ہونے پر راضی ہوجاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ 10 میں سے ایک یا دو امیدوار ٹھیک طور پر دلچسپی لیتے ہیں، باقی امیدوار اپنا ذہن بدل لیتے ہیں، وہ مختلف بہانے بناتے ہیں، وہ ایجنسی اور انٹرویو لینے والے کا وقت ضائع کرتے ہیں۔

اسی وجہ سے ٹیلی پورٹ کے ایچ آر ہیڈ نے کہا کہ دبئی میں واک ان انٹرویوز منعقد کیے جاتے ہیں جہاں امیدواروں کے اصل دستاویزات اور پاسپورٹ چیک کیے جاتے ہیں۔ جسمانی طور پر تصدیق کی جاتی ہے اور موقع پر ہی انہیں نتائج سے آگاہ کیا جاتا ہے، جبکہ انتخاب کی صورت میں کامیاب امیدوار اپنے پاسپورٹ حوالے کرتے ہیں۔

پانچ مراحل

ٹیلی پورٹ کے مطابق، بھرتی کے عمل میں پانچ مراحل ہیں، جس میں کردار، تلاش، انتخاب کا عمل، کراس چیک، اور پلیسمنٹ اور ٹرائل شامل ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی شخص دبئی میں انٹرویو کے لیے آتا ہے تو وہ اپنی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ انہوں نے وہاں رہنے کے لیے پیسے خرچ کیے ہیں۔ ”یہ بھرتی کمپنیوں کی طرف سے ایک اشارہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ امیدوار سنجیدہ ہے۔“

دبئی وزٹ ویزا پر موجود کوئی بھی شخص واک ان انٹرویو میں شرکت کرسکتا ہے اور زیادہ تر لوگ اسی راستے کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن لوگ ملازمت کے متلاشی ویزا پر بھی شہر کا دورہ کرسکتے ہیں ، جس سے انہیں روزگار کے مواقع کے لئے درخواست دینے کی اجازت ملتی ہے۔

ویزا ناگزیر

اگر کسی شخص کے پاس ویزا نہیں ہوتا تو وہ انٹرویو میں شرکت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے کسی کمپنی کی طرف سے مدعو کیا جاتا تھا۔ اعلی تعلیم یافتہ امیدوار کے لئے کچھ پری سلیکشن ورچوئل انٹرویو ہوسکتے ہیں، لیکن کچھ چیزوں پر ان کے ساتھ جسمانی طور پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے۔

پاکستانیوں کے لیے دبئی میں ویزا پر پابندی

شہزاد عزیز نے افسوس کا اظہار کیا کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے کچھ شہریوں کی ”غیر قانونی سرگرمیوں“ کی وجہ سے پاکستانیوں کے لئے لیبر کیٹیگری کے ویزا پر پابندی عائد کردی ہے۔ ’’لیکن جن کے پاس ڈگری ہے، انھیں روزگار کا ویزا مل رہا ہے۔

غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں بھیک مانگنا اور سڑکوں پر کھانا فروخت کرنا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ کچھ پاکستانی شہری بینک قرضوں کی ادائیگی نہ کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات سے فرار ہو جاتے ہیں۔

’آپ کی کہانی‘

لیکن پاسپورٹ، مطلوبہ دستاویزات اور جدید نظر آنے والا ریزیوم آپ کو دبئی میں نوکری نہیں دے گا۔ آپ کو ایک کہانی کی ضرورت ہے جو آپ انٹرویو کے لئے جانے کے دوران بھرتی کرنے والوں کو بتا سکیں۔

ایک کارپوریٹ ماہر سید منصور حسین نے 28 نومبر کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کیے گئے جنید اکرم وی لاگ میں کہا کہ دراصل آپ کی کہانی سب کچھ ہے، یہ کتنی دلچسپ ہے اور آپ نے اسے تیار کرنے میں کتنا وقت لیا ہے۔

حسین دبئی میں بین الاقوامی ذائقوں اور خوشبوؤں سے وابستہ ہیں۔ وہ کھانے اور مشروبات کی صنعت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ کراچی سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے حسین کا خیال ہے کہ ’کہانی کے ساتھ آنے میں ہفتوں یا مہینوں میں کام بن سکتا ہے، بس آپ کو بتانے کے لئے ایک دلچسپ کہانی کی ضرورت ہے‘۔

dubai

Interview

Government Jobs

Job Interview